|

وقتِ اشاعت :   February 7 – 2023

سابق صدر اور (ر) آرمی چیف جنرل پرویز مشرف دبئی میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔پرویز مشرف کی تاریخ کارگل سے شروع ہوتی ہے جب کارگل میں بڑا آپریشن کیا گیا ، اس دوران مسلم لیگ ن کی حکومت تھی، اس دوران حالات کارگل میں انتہائی کشیدہ رہے ن لیگ کی قیادت نے یہ دعویٰ کیا کہ کارگل آپریشن سے وہ آگاہ نہیں تھے جبکہ اس وقت کی فوجی قیادت پرویز مشرف ان کے برعکس یہ بتاتے کہ تمام حالات سے حکومت واقف تھی ۔

بہرحال کارگل کے بعد بھارت کے ساتھ بہترین اوردوستانہ تعلقات کے لیے پرویز مشرف نے تگ ودو شروع کردی ،امن آشا کے ذریعے ایک مہم چلی، پرویز مشرف نے بھار ت کا دورہ کیا،بھارتی حکمرانوں سے ملاقاتیں کیں، کشمیر سمیت دیگر معاملات طے کرنے کے حوالے سے بات چیت شروع کی مگر اس میں کوئی کامیابی نہیں مل سکی البتہ ملکی تاریخ میںپرویز مشرف متنازعہ شخصیت کے طور پر سامنے آئے ۔12اکتوبر 1999ء کو پرویزمشرف نے ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، اس وقت کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مرحوم جنرل پرویز مشرف کو ان کے عہدے سے برطرف کرتے ہوئے جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کیا ، وزیراعظم ہاؤس میں جنرل ضیاء الدین بٹ کی آرمی چیف تقرری کی تقریب ہورہی تھی، اس دوران پرویزمشرف سری لنکا سے اسلام آباد آرہے تھے۔

پرویزمشرف کے حامی جنرلز نے جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنانے پر اعتراض کیا ،ایک طرح سے اسے فوج کے اندر بغاوت بھی کہی جاسکتی ہے۔ بہرحال پرویز مشرف نے پی ٹی وی سمیت تمام اداروں پر فوج کے دستے بھیج دیئے اور ان کا کنٹرول سنبھال لیا اس طرح سے ایک منتخب حکومت کاخاتمہ ہوا جس کے بعد ملک میں ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی۔ اگرپرویزمشرف کے دور حکومت میں بلوچستان کا ذکر نہ کیاجائے تو تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے۔ پرویز مشرف نے بلوچستان میں بڑے منصوبوں کا اعلان کیا ۔

جس پر بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے واضح اختلافات رکھتے ہوئے اسے بلوچستان کے ساحل وسائل پر قبضہ گردانتے ہوئے عوامی مہم شروع کردی۔ پرویز مشرف ہر جگہ جاتے تو تین سرداروں کا ضرور تذکرہ کرتے جن میں شہید نواب اکبرخان بگٹی، سردار عطاء اللہ خان مینگل اور نواب خیر بخش مری کا نام لیتے کہ یہ تین سردار بلوچستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔ پرویز مشرف نے بلوچ قوم پرست جماعتوں کے تحفظات کو بغاوت گردانتے ہوئے طاقت کا استعمال کیا ۔اس دوران ڈیرہ بگٹی میں حالات انتہائی کشیدہ رہے، نواب اکبرخان بگٹی کے قلعے پر حملہ کیا گیا ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں لوگ جان سے گئے جس کے بعد نواب اکبرخان بگٹی نے پہاڑوں کا رخ کیا اور 26اگست 2006کو تراتانی کے پہاڑی علاقے میں نواب اکبرخان بگٹی شہید ہوئے ۔اس سانحہ کو بھی پرویز مشرف اور اس کی حکومت میں شامل شخصیات نے مختلف رنگ دیا کہ چند آفیسران نواب اکبرخان بگٹی سے مذاکرات کے لیے ایک غار میں داخل ہوئے کہ اچانک دھماکہ ہوا اور نواب اکبرخان بگٹی شہید ہوگئے لیکن آج تک اس کی شفاف تحقیقات نہیں ہوسکی۔

سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ نواب اکبرخان بگٹی کانمازجنازہ اور تدفین بھی چند آفیسران کے ذریعے کی گئی ،یہ بڑاظلم تھا کہ ان کی میت ورثاء کے حوالے نہیں کی گئی تاکہ مذہبی رسومات کے تحت نواب اکبرخان بگٹی کی نمازجنازہ اور تدفین کی جاتی،بلکہ تکبر، طاقت اور گھمنڈ کا مظاہرہ یہاں تک کیا گیا کہ ان کی تابوت کو تالا لگا کرسیکورٹی اہلکاروں کے سخت پہرے میں تدفین کی گئی اور قبر پر پہرہ بٹھا دیا گیا ۔اہل بلوچستان کے دلوں میں اس توہین آمیز سلوک کی یادیں آج بھی زندہ ہیں اور شاید ہمیشہ زندہ رہیں گی۔

نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان میں شورش مزید بڑھ گئی جو اب تک جاری ہے۔ تاریخ کو کبھی مسخ نہیں کیاجاسکتا حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے غلطیاں تسلیم کرکے ہی آگے بڑھاجاسکتا ہے۔ بہرحال پرویزمشرف کے دور میں افغان وارکے بعد کیا صورتحال پیدا ہوئی یہ بھی سب کے سامنے ہے۔ آج پرویزمشرف دنیا میں نہیں رہے مگر ان غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے کہ ملک میں آئین کی بالادستی یقینی ہونی چاہئے اور طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں ،غیر جمہوری حکومتوں کے دورمیں ملک کو نقصان ہی پہنچا ہے کوئی فائدہ نہیں ملا۔پرویز مشرف کے جانے کے بعد ایک باب ختم ہوگیا مگر تاریخ میں بہت ساری داستانیں چھوڑ گیا ،جو سبق آموز ہیں۔