ترکیہ میں 1939 کے بعد بدترین زلزلے نے 81 میں سے 10 صوبوں میں تباہی پھیلا دی ہے اور امدادی سرگرمیوں میں سست روی گزشتہ 20 برس سے بر سر اقتدار صدر رجب طیب اردگان کیلئے تنقید کا باعث بنتی جارہی ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردگان نے آج بھی زلزلہ سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور بتایا کہ ترکیہ میں زلزلے سے اموات کی تعداد 21 ہزار 43 ہوگئی ہے، زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں لاکھوں عمارتیں ناقابل رہائش ہوچکی ہیں، چند ہفتوں میں تباہ شدہ شہروں کی تعمیر نو شروع کرنے کے اقدامات کریں گے، متاثرہ علاقوں میں لوٹ مار اور دیگر جرائم میں ملوث افرادکےخلاف کارروائی ہوگی۔
اس کے علاوہ اسی زلزلے سے شام میں اموات کی تعداد 3 ہزار553 ہو چکی ہے، ترکیہ اور شام میں زلزلے سے مجموعی اموات 24 ہزار 596 ہوگئی ہیں۔ ترکیہ اور شام میں پیر 6 جنوری کو 7.8 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔
اردگان کا امدادی کاموں میں سست روی کا اعتراف
ترکیہ میں الیکشن جون 2023 میں شیڈول ہے تاہم صدر طیب اردگان عندیہ دے چکے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات مئی میں ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں آنے والے اس تباہ کن زلزلے اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی کوتاہیوں نے طیب اردگان کیخلاف تنقید کرنے والوں کو بڑھاوا دیا ہے حالانکہ ترک صدر اس مشکل گھڑی میں قوم سے متحد رہنے کی اپیل کرچکے ہیں تاہم ان کیخلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
صدر اردگان نے ان مخالف آوازوں پر اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امدادی سرگرمیوں میں نقائص سامنے آئے ہیں تاہم انہوں نے سارا ملبہ قسمت پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’ایسی چیزیں ہمیشہ ہوتی رہیں گی، یہ تقدیر کا حصہ ہے۔‘
خیال رہے کہ ترکیہ دو فالٹ لائنز پر واقع ہے اور اس ملک میں تعمیراتی ضابطے 80 برس قبل سے موجود ہیں تاہم پیر کو آنے والے یکے بعد دیگرے دو زلزلے 1939 کے بعد اب تک کے طاقتور ترین زلزلے تھے۔ پہلا زلزلہ صبح 4بجکر 17 منٹ پر آیا جس کی شدت 7.8 تھی جبکہ اس کے بعد آنے والے زلزلے کی شدت 7.5 تھی جو کچھ میل کے فاصلے پر آیا۔
زلزلے کے نتیجے میں ترکیہ کے 81 میں سے 10 صوبوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچی جس کے لیے بڑے پیمانے پر فوری ریسکیو آپریشن شروع کرنے کی ضرورت تھی۔
تاہم ریسکیو آپریشن شروع ہونے میں معمول سے کچھ زیادہ وقت لگا اور کچھ دیہاتوں میں تو کئی دن تک ٹیمیں نہ پہنچ سکیں۔ ترکیہ میں ریسکیو آپریشن کیلئے 30 ہزار افراد بشمول پیشہ ور ریسکیو ورکرز اور رضاکار میدان میں آئے جبکہ دیگر کئی ممالک سے بھی ریسکیو ٹیمیں ترکیہ پہنچیں۔
زلزلے سے تقریباً 6 ہزار سے زائد عمارتیں منہدم ہوئیں اور ترکیہ کی سرکاری ڈیزاسٹر اتھارٹی ’آفاد‘ کے ورکرز بھی اس کی زد میں آئے۔ زلزلے کے بعد کے ابتدائی اوقات انتہائی اہم تھے تاہم سڑکیں تباہ ہوچکی تھیں اور ریسکیو ٹیموں کو پہنچنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور زیادہ تر تباہ شدہ علاقوں میں ٹیمیں زلزلے کے دوسرے یا تیسرے دن پہنچیں۔
دنیا میں کسی بھی ملک کو زلزلوں کا اتنا تجربہ نہیں ہوگا جتنا ترکیہ کو ہے تاہم ملک کے مرکزی والنٹیئر ریسکیو گروپ ’اخوت سرچ اینڈ ریسکیو ایسوسی ایشن ‘ کے سربراہ کو ایسا لگتا ہے کہ اس بار سیاست آڑے آگئی۔
ترکیہ میں 1999 میں آنے والے آخری بڑے زلزلے کے بعد ترک فوج نے ہی سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کی قیادت کی تھی تاہم کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد صدر اردگان نے ترک معاشرے میں فوج کی طاقت کو محدود کرنے کی کوششیں کیں۔
اخوت کے سربراہ علی ناسوہ ماہروکی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ’دنیا بھر میں انتہائی منظم اور لاجسٹکس کے اعتبار سے طاقتور ترین ادارے مسلح افواج ہوتے ہیں، ان کے پاس کئی طریقے ہوتے ہیں، لہٰذا آپ کو انہیں اس طرح کی آفات میں استعمال کرنا ہوتا ہے۔‘
خیال رہے کہ حالیہ زلزلے میں فوج کے بجائے ترکیہ کی سول ڈیزاسٹر اتھارٹی ریسکیو آپریشن کو لیڈ کر رہی ہے جس کی افرادی قوت 10 سے 15 ہزار کے درمیان ہے، اسے اخوت جیسے دیگر غیر سرکاری اداروں کا تعاون بھی حاصل ہے جس کے 3 ہزار کے قریب رضا کار ہیں۔
ماہروکی کا کہنا ہے کہ موجودہ ریسکیو اینڈ سرچ آپریشن 1999 سے بھی زیادہ بڑا ہے لیکن چونکہ حکومت نے منصوبہ بندی میں فوج کو شامل نہیں کیا لہٰذا اسے ریسکیو آپریشن شروع کرنے کیلئے حکومتی احکامات کا انتظار کرنا پڑا، اسی طرح ان کے ادارے کو بھی حکومت کی جانب سے احکامات ملنے کا انتظار کرنا پڑا جس کی وجہ سے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن شروع کرنے میں تاخیر ہوئی۔
خود طیب اردگان نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ سرچ آپریشن اتنا تیز نہیں تھا جس کی حکومت توقع کر رہی تھی حالانکہ اس وقت ترکیہ کے پاس دنیا کی سب سے بڑی سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم موجود ہے۔
کئی برسوں سے ترکوں کو خبردار کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں بڑے زلزلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاہم کچھ لوگ اس وارننگ کو صرف مشرقی اناطولین فالٹ سے منسوب کرتے رہے ہیں کیوں کہ زیادہ تر بڑے جھٹکے اسی فالٹ لائن پر محسوس کیے جاتے ہیں۔
جب جنوری 2020 میں الازغ میں زلزلہ آیا تو استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی کے جیولوجیکل انجینیئر پروفیسر ناسی گورر نے خطرے کو بھانپ لیا تھا، انہوں نے یہ پیش گوئی بھی کردی تھی کہ آگے چل کر آدیامان کے شمال اور قہرمان مرعش شہر میں زلزلہ آسکتا ہے۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے مقامی حکومت ، گورنرز اور مرکزی حکومت کو آگاہ کیا تھا، میں نے کہا تھا کہ برائے مہربانی اپنے شہروں کو زلزلہ کے لیے تیار کرنے کے حوالے سے اقدامات کریں، ہم انہیں روک تو نہیں سکتے لیکن ان کی وجہ سے ہونے والی تباہ کاریوں کا حجم کم کرسکتے ہیں۔‘
ترکیہ کے معروف ارتھ کوئیک انجینیئرنگ اسپیشلسٹ پروفیسر مستفیٰ ایردک سمجھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر جانوں کا ضیاع عمارتوں کی تعمیر میں قانون پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ نقصان ہوتا ہے لیکن اس طرح کا نقصان نہیں ہونا چاہیے، جس طرح کیک کے اوپر تہہ لگائی جاتی ہے اس طرح فلور کے اوپر فلور بنا دیے گئے ، اس عمل کو روکا جانا چاہیے تھا اور اسی وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔
ترک قانون کے مطابق جو 2018 میں اپ ڈیٹ کیے گئے، عمارتوں کی تعمیر میں اعلیٰ معیار کا کنکریٹ استعمال کرنا لازمی ہے جبکہ ستونوں اور شہتیروں کو اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ جھٹکوں کو آسانی سے سہہ سکیں۔
پروفیسر ایردک کا کہنا ہے کہ اگر قانون پر من و عن عمل کیا جاتا تو پلرز نہیں گرتے اور جو بھی نقصان ہوتا وہ شہتیروں کے گرنے کی وجہ سے ہوتا لیکن یہاں تو ستون ہی ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے ایک کے اوپر ایک فلور گرتا چلا گیا اور بھاری جانی نقصان ہوا۔
اس معاملے میں وزیر انصاف نے کہا ہے کہ جو بھی قصور وار پایا گیا اسے سزا دی جائے گی۔
ترکیہ کی اپوزیشن پارٹیاں اور ناقدین زلزلہ ٹیکس کے استعمال پربھی سوال اٹھاتے ہیں۔ اپوزیشن جماعت CHP کے سربراہ کمال قلیچ دار اوغلو کہتے ہیں کہ 20 سال اقتدار میں رہنے کے باوجود صدر اردگان نے ملک کو زلزلوں کیلئے تیار نہیں کیا۔
ایک سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ 1999 کے زلزلے کے بعد لگائے جانے والے دو ’زلزلہ زدگان یکجہتی ٹیکسز‘ کی مد میں جمع ہونے والی خطیر رقم کہاں خرچ ہورہی ہے حالانکہ ان فنڈز سے تو ایسی عمارتیں تعمیر کی جانی تھیں جو زلزلہ پروف ہوں۔
بی بی سی کے مطابق ان میں ایک ٹیکس تو آج تک موبائل فون آپریٹرز اور ریڈیو اور ٹی وی آپریٹرز سے وصول کیا جارہا ہے اور اس سے حکومتی خزانے میں ایک اندازے کے مطابق 88 ارب لیرا (4.6 ارب ڈالر ) جمع ہوئے۔ دو برس قبل اس ٹیکس میں 10 فیصد اضافہ بھی کیا گیا تھا تاہم حکومت نے کبھی مکمل طور پر اس بات سے آگاہ نہیں کیا کہ رقم کہاں خرچ کی گئی۔
اربن پلانرز شکایت کرتے ہیں کہ زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں قوانین پر عمل نہیں کیا گیا اور 2018 میں تعمیرات کے حوالے سے ایک ایمنسٹی اسکیم متعارف کرائی گئی جس سے فائدہ اٹھاکر عمارتوں کی تعمیر میں کی جانے والی خلاف ورزیوں سے محض جرمانہ دے کر جان چھڑا لی گئی اور 60 لاکھ عمارتوں میں قانون کی مطابق تبدیلیاں نہ کی جاسکیں۔
ان جرمانوں سے ترک حکومت کو اربوں لیرا تو مل گئے لیکن 2019 میں استنبول میں ایک عمارت گر گئی جس میں 21 لوگ ہلاک ہوئے۔ اس وقت چیمبر آف سول انجینیئرز کے سربراہ نے کہا تھا کہ یہ ایمنسٹی ترک شہروں کو قبرستان بنا دے گی۔
بی بی سی کے مطابق استنبول یونیورسٹی کی پیلن پینار نے بتایا کہ حالیہ زلزلے سے متاثرہ 10 شہروں سے بھی ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایک لاکھ سے زائد درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور حالیہ زلزلے میں بڑے پیمانے پر عمارتوں کے گرنے کے پیچھے اسی ایمنسٹی اسکیم کا ہاتھ ہے۔
ترکیہ میں سیاسی اختلاف بڑھتا جا رہا ہے۔ 20 سال سے بر سر اقتدار طیب اردگان کو مخالفین آمر سے تشبیہہ دیتے ہیں اور مخالفین پر طاقت کے استعمال کا الزام لگاتے ہیں۔
کمال قلیچ دار اوغلو کہتے ہیں کہ وہ مئی میں ہونے والے ممکنہ صدارتی الیکشن میں ایک ایسا متفقہ مضبوط امیدوار لائیں گے جو طیب اردگان کو شکست دے سکے۔
اس کے علاوہ ترک معیشت بھی مشکلات کا شکار ہے اور روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
زلزلے کے بعد حکومت کی جانب سے ٹوئٹر کو بلاک کیے جانے کے فیصلے پر بھی تنقید کی جارہی ہے، اس حوالے سے ترکیہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام افواہوں کو روکنے کیلئے اٹھایا گیا۔
ناقدین کہتے ہیں کہ حالیہ زلزلہ آئندہ صدارتی انتخاب پر ضرور اثر انداز ہوگا لیکن اس سے اردگان کو کتنا نقصان ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔