بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کوئی انوکھی بات نہیں ہے دہائیوں سے بلوچستان سیاسی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے، کبھی بھی صوبے میں ایک مضبوط حکومت نہیں بنی اور نہ ہی کسی وزیراعلیٰ نے اپنی مدت پوری کی۔ سردار عطاء اللہ خان مینگل سے لے کر جام کمال خان تک، ایک بھی وزیراعلیٰ نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی کیونکہ ان کے ادوارحکومت میں مختلف نوعیت کے مسائل پیداہوئے یا پیداکئے گئے۔
سردار عطاء اللہ خان مینگل پہلے منتخب وزیراعلیٰ بلوچستان تھے جنہوں نے مختصر مدت میں اپنی حکومت کے ذریعے وفاق کے سامنے بلوچستان کا مقدمہ لڑا اور اپنے فیصلوںسے کبھی پیچھے نہیں ہٹے، یہ کہاجاسکتا ہے کہ ان کی سب سے مضبوط حکومت تھی مگر اسے ایک سازش کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ جو کہانی بنائی گئی وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اسے غلط تجربہ قرار دیا گیا ،اس کے بعد بلوچستان میں آج تک حکومتیں بنتیں رہیں اور چلتی بنیں، جس کاایک تسلسل آج بھی جاری ہے۔
بہرحال موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کی اور اس میں اشارہ دیا کہ ان کو منصب سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے ۔بہرحال ایک نیا پینڈورا باکس بھی کھل گیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ حکومتیں کسی اور نے گرائیں ،ہمیں استعمال کیا گیا، نکال دیں تو، استعفیٰ دوں گا نہ ہی حکومت گراؤں گا، شاید آئندہ الیکشن بھی نہ لڑوں ۔وزیراعلیٰ بناکر مجھے امتحان کی کرسی پر بٹھایا گیا، کامیابی پر آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کا شکریہ ادا کرنے جاؤں گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ملکی معاشی حالات دیکھ کر نہیں لگتا کہ الیکشن ہوں گے، ناکامیوں کا سہرا ہمیشہ سیاستدانوں کے سر باندھا جاتا ہے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک جیسے اور بھی منصوبے آئیں گے، سیندک منصوبے میں بلوچستان کا 2 نہیں 6 فیصد شیئر ہے، وفاقی حکومت 600 سے 700 ارب روپے بلوچستان پر خرچ کررہی ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھاکہ بعض انتظامی امور میں ہائی کورٹ نے اسٹے لیا ہے، ہمیں کام کرنے نہیں دیا جارہا ، ان اسٹے کے خلاف سپریم کور ٹ جائوں گا۔انہوں نے مزید کہا کہ میری ذمہ داری بنتی ہے کہ عوام کے حق کے لیے آواز اٹھاؤں،میرعبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ بہت سارے دوست پارٹی چھوڑ کر گئے ہیں، جو جاتا ہے جائے، بسم اللہ۔وزیر اعلیٰ نے واضح نہیں کیا کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے، لیکن باپ پارٹی سے چند ارکان اسمبلی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں، مولانا فضل الرحمان پہلے ہی عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ لائیں گے۔
مگر فی الوقت زمینی حقائق یہ دکھائی نہیں دے رہے کہ مولانافضل الرحمان کوئی نیا وزیراعلیٰ بلوچستان سامنے لائیں گے گوکہ اس وقت اختلافات ان کے اندر موجود ہیں مگر وفاقی حکومت کے سامنے پہلے سے ہی سیاسی اور معاشی چیلنجز موجود ہیں جبکہ کے پی اور پنجاب حکومت کی تحلیل کے بعد بلوچستان حکومت میں تبدیلی کے امکانات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ،اگر یہ غلطی کی گئی ہے تو بہت بڑا نقصان پی ڈی ایم سیاسی حوالے سے اٹھائے گی، ملک مزیدسیاسی عدم استحکام کا شکار ہوجائے گااور جب سیاسی عدم استحکام شدت اختیار کرے گا تو معیشت پر اس کے اثرات لازمی پڑینگے۔
اور یہ تنقید شروع ہوجائے گی کہ وفاقی حکومت کی ترجیحات سیاسی مفادات حاصل کرنا ہے ناکہ ملک کو سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے کھل کر اس بات کا اظہار نہیں کیا کہ انہیں کس جانب سے اشارہ ملا ہے یا پیغام دیا گیا ہے کہ حکومت جارہی ہے اگر کھل کر بات کرتے تو منظر نامہ واضح ہوجاتا ،اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے بیان پر ردعمل کس کا آئے گا اور کیسے آگا تبھی پردہ اٹھے گااور کردار سامنے آئینگے۔