ملکی معیشت اور مستقبل میں پیداہونے والے بحرانات سے متعلق بتایاجارہا ہے کہ حالات بہتری کی طرف نہیں جارہے بلکہ معیشت مزیدتنزلی کا شکار ہوتا جائے گامگر ہمارے ہاں سیاسی کھیل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ روز نئی شہ سرخی سیاسی حوالے سے سامنے آجاتی ہے گرفتاریاں، انتخابات، ضمنی انتخابات، نیب آرڈیننس، کیسز سے ریلیف، ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات، آڈیولیکس، ویڈیو لیکس پر طویل پریس کانفرنسز اور جلسے جلوس، ان بنیادوں پر تمام تر تبصرے شروع ہوجاتے ہیں میڈیا کو سیاسی ماحول میں گھمادیاجاتا ہے ہر خبر سنسنی خیز طریقے سے پیش کیاجاتا ہے۔ ملک کے اندر اس وقت جو صورتحال معاشی حوالے سے پیدا ہورہی ہے۔
اس کی پرواہ کسی کو بھی نہیں ہے اگر سوال کیاجاتا ہے تو حکومت گزشتہ حکمرانوں کو پرملبہ ڈال دیتی ہے، اپوزیشن سے پوچھا جاتا ہے تو وہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی پاکستانی معیشت اپنے پاؤں پرکھڑی نہیں ہوسکی، کتنے مواقع پاکستانی معیشت کو بہتر کرنے کے ملے مگر حکمرانوں نے سمجھوتہ کرکے ملکی مفادات سے زیادہ عزیز عالمی دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کورکھا اور اس کی وجہ وہ پابندیوں کو بتاتے ہیں عالمی ممالک سے ناراضگی کے حق میں کوئی نہیں مگر اپنے ملکی مفادات سب کو عزیز ہوتے ہیں اور اپنی معاشی، خارجہ پالیسی بناتے ہیں کہ ہمیں کس طرح سے آگے بڑھنا ہے گوکہ خطے میں تھانیداری کی جنگ اب بھی چل رہی ہے۔
ہر کوئی اس خطے میں اپنی گرفت چاہتی ہے مگر اس کا قطعاََ مطلب نہیں کہ پاکستان ایک طرف رہ کر خود کو بحرانات میں دھکیل دے۔پاک ایران گیس منصوبہ آج تک اس لیے مکمل نہیں ہوسکا کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ناراض ہوجائینگے، ایران سستی بجلی بھی دینے کے لیے تیار ہے مگر ہم لینے کو تیار نہیں۔ ایرانی سرحد کے ذریعے بہترین تجارت کی جاسکتی ہے سستے داموں تیل بھی لیا جاسکتا ہے یہ فیصلے حکمرانوں سے ہوتے نہیں کیونکہ عالمی دباؤ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں کہ بہت سارے ممالک ایران کے ساتھ تجارت کررہے ہیں،مغرب، سینٹرل ایشیاء، بھارت سب اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے سرمایہ کاری کررہے ہیں اور ایران کی سرمایہ کاری بھی ان ممالک میں جاری ہے۔آج ہمارے پڑوسی ممالک معاشی حوالے سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور ہم پتھر کے دورمیں جارہے ہیں، شہری تمام تر بنیادی سہولیات سے محروم ہوچکے ہیں، گیس، بجلی، پانی تک میسر نہیں۔
مہنگائی تو پہلے سے ہی بہت زیادہ ہے اب ایک نیا طوفان مہنگائی کا سراٹھائے گا جسے غریب عوام برداشت نہیں کرپائے گی۔اگر ایک جائزہ لیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان کی مدد کس بنیاد پر کی تو تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سرد جنگ سے لے کر نائن الیون تک پاکستان کو مالی امداد دی گئی اس کے بعد سے لیکر آج تک ہمارے حکمرانوں کا اکتفا اسی مالی امداد پر ہے۔ اب آئی ایم ایف نے پاکستان کو مکمل طور پر اپنے شکنجوں میں جکڑ لیا ہے اتنا قرض لیا گیا ہے کہ اسے سود سمیت واپس کرنے کے لیے مزید قرض عالمی مالیاتی ادارے سے لیاجارہا ہے جبکہ دوست ممالک سے بھی مالی امداد کے لیے بات کی جارہی ہے۔
کوئی بھی ملک اس طرح کی معاشی پالیسیوں سے نہیں چل سکتا جب تک وہ اپنے فیصلوں میں خود مختار نہ ہو۔ حکمران جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو یہ درس دیتے ہیں کہ ہمیں غلامی نہیں بلکہ آزاد ملک بن کر فیصلہ کرناچاہیے لیکن جب اقتدار مل جاتا ہے تو یوٹرن لیتے ہیں۔ بہرحال عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے اور آگے چل کر معاشی مسائل غریبوں کا جینا مشکل کردیں گے جس کی وجہ غلط فیصلے اور آزاد معاشی اور خارجہ پالیسی کانہ ہونا ہے۔