|

وقتِ اشاعت :   February 17 – 2023

ملک میں سیاسی انجینئرنگ کا مسئلہ دیرینہ ہے مگر یہ تجربات یکطرفہ طور پر نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں اور مقتدرحلقوں،اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت اور گٹھ جوڑ کے ذریعے کئے گئے۔ اس کی ایک طویل تاریخ ہے مگر سیاستدانوں نے کبھی بھی اس سے سبق نہیں سیکھا،چور دروازے سے اقتدار تک رسائی حاصل کرنا ہمیشہ سے ان کی ترجیح رہی ہے۔

البتہ چند ایک سیاسی جماعتوں نے سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی مخالفت کی ہے اور ان کے قائدین نے بڑی تحریکیں چلائیں جس میں ادیب، وکلاء، سول سوسائٹی، صحافتی برادری نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور جیل کی صعوبتیں کاٹیں مگر اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے صرف اس لیے کہ ملک کو ایک جمہوری انداز میں عوامی مینڈیٹ کے ذریعے چلایاجائے جس پارلیمانی ماڈل کے اندر آج ترقی یافتہ ممالک کانظام چل رہا ہے عین اسی کے مطابق جہاں قانون اور آئین کی بالادستی ہو اس سے بالاتر کوئی نہ ہو۔مگر بدقسمتی سے سیاست کو صنعتکاری میں تبدیل کرکے کاروباری شخصیات نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہر وہ کام کیا جس کی اجازت آئین اور قانون نہیں دیتا۔

بہرحال پی ٹی آئی ایک واضح مثال اس لیے ہے کہ ان کے چیئرمین عمران خان یہ بات کہتے آئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت ہے ان کے ساتھ تعلقات ضروری ہیں جب ان کی حکومت تھی تو انہیں کبھی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی شکوہ نہیں رہا، یہاں تک کہ فون ریکارڈنگ تک وہ یہ بتاتے رہے کہ یہ ایک بہترین عمل ہے اس سے معلومات ملتی ہیں کہ منتخب وزیراعظم صاحب کیا کررہے ہیں، ان کے پاس کس کے فونز آرہے ہیں اور یہ سیکیورٹی کے لیے اچھا اقدام ہے۔ جتنے بھی کام پی ٹی آئی نے کیے وہ تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طورپر یاد رکھے جائیں گے اور اس عمل سے آج پی ٹی آئی گزر بھی رہی ہے۔ جب مکافات عمل شروع ہوتا ہے تو یقینا تکلیف بھی ہوتی ہے اب عمران خان صاحب کو قانون اور آئین یاد آرہاہے اپنے اختیارات اپنی پوزیشن سب کچھ بتارہے ہیں کہ پارلیمان کی بالادستی کیا ہوتی ہے، منتخب وزیراعظم کے اختیارات کیا ہوتے ہیں؟ جب ان کی حکومت تھی تو عمران خان یہ بتاتے پھرتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ہماری حکومت کے درمیان بہترین تعلقات ہیں ہم ایک پیج پر رہ کر کام کررہے ہیں اپوزیشن کو تکلیف ہورہی ہے میرے کسی کام کے اندر اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہیں کررہی ہم اپنے فیصلے خود کررہے ہیں۔

مگر جب کرسی نیچے سے کِھسک گئی تو عمران خان کی چیخیں نکلنے لگی ہیں، آئے روزسابق آرمی چیف (ر)جنرل قمرجاوید باجوہ کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے، سائفر سے لیکر جنرل (ر) باجوہ تک وہ متعدد بار اپنے بیانات سے بھی یوٹرن لیتے آرہے ہیں جبکہ اب بھی وہ اس خواہش کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں۔مطلب واضح ہے کہ ان کے لیے 2014ء جیسے اہتمام کیے جائیں اور پھر انہیں کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار میں لایاجائے۔آج کل عمران خان مختلف کیسز میں بری طرح پھنس چکے ہیں خاص کر ٹیرینا وائٹ کا معاملہ، فارن فنڈنگ جیسے کیسز میں خطرہ واضح دکھائی دے رہا ہے اس لیے وہ تمام تر زور لگارہے ہیں کہ الیکشن جلد ہوجائیں اور حکومت ان کو مل جائے، پھر اپنے اوپر سے کیسز کو ختم کرائیں اس کے علاوہ عمران خان کی تبدیلی،خوشحالی، آزاد خارجہ پالیسی کے بیانات ان کے گزشتہ دورحکومت میں واضح ہوچکے ہیں کہ انہوں نے کونسابڑا تیر مارا جس کی تعریف کی جائے ماسوائے اپنے مخالفین کو آئے روز جیل میں ڈال کر کیسز بنانا،نیب کو استعمال کرکے بہترین آفیسرز کی زندگیوں کو برباد کرنا، یہ سب ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں جو بار بار سامنے آتے رہیں گے۔

بہرحال ایک دلچسپ خط عمران خان نے صدر مملکت کو لکھا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بیانات پر تحقیقات کی جائے۔عمران خان کی جانب سے صدرکو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ چند روز کے دوران عوامی سطح پر نہایت ہوشربا انکشافات ہوئے ہیں، معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ جنرل باجوہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جنرل باجوہ نے صحافی سے اعتراف کیا کہ ہم عمران خان کو ملک کے لیے خطرہ سمجھتے تھے، جنرل باجوہ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ عمران خان اقتدار میں رہے تو ملک کو نقصان ہوگا، تحقیق کی جائے کہ جنرل باجوہ کے استعمال کیے گئے لفظ’ہم’ سے کیا مراد ہے۔عمران خان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ کویہ اختیار کس نے دیا کہ منتخب وزیراعظم سے متعلق فیصلہ کریں، فیصلے کا حق صرف عوام کا ہے کہ وہ کسے وزیراعظم منتخب کرنا چاہتے ہیں۔

جنرل باجوہ کا خودکو فیصلہ ساز بنانا آئین کے آرٹیکل 244 کی صریح خلاف ورزی ہے، جنرل باجوہ کا خود کو فیصلہ ساز بنانا آئین میں تیسرے شیڈول میں درج حلف کی خلاف ورزی ہے۔عمران خان کا کہنا ہے کہ جنرل باجوہ نے اپنی گفتگو میں نیب کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ بھی کیا، جنرل باجوہ نے تسلیم کیا کہ انہوں نے شوکت ترین کے خلاف نیب کا مقدمہ ختم کرایا، جنرل باجوہ کا یہ دعویٰ بھی حلف کی صریح خلاف ورزی ہے۔

آئین کے تحت افواج پاکستان وزارتِ دفاع کے ماتحت ڈیپارٹمنٹ ہے، آئینی نظم کے تحت سویلین حکام یا خود مختار ادارے فوج کے ماتحت نہیں۔عمران خان نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ کی وزیراعظم سے گفتگو کی ریکارڈنگز آرمی چیف کے حلف کی سنگین خلاف ورزی ہے، جنرل باجوہ کی وزیراعظم سے گفتگو کی ریکارڈنگز بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس سوال کاجواب اہم ہے کہ جنرل باجوہ کیوں اور کس حیثیت و اختیار سے خفیہ بات ریکارڈ کرتے تھے، صدر مملکت اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہونے کے ناطے آپ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ آپ معاملے کا فوری نوٹس لیں۔ عمران خان نے خط میں مطالبہ کیا ہے ۔

تحقیقات کے ذریعے تعین کیا جائے کہ آیا آئین کے تحت آرمی چیف کے حلف کی ایسی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ عمران خان نے خط میں جو چارج شیٹ بنائی ہے اس تمام عمل سے وہ خود واقف تھے اور اس کا اعتراف بھی کرچکے ہیں اب اس کی تحقیقات سے کیا نتائج برآمد کیے جاسکتے ہیں۔ایک انٹرویو کے دوران تو عمران خان خود اس بات کو ایک بار نہیں بار بار دہراتے ہوئے فرماتے ہیں کہ فون ریکاڈنگ ضروری ہے اس ایک جملے کے ساتھ دیگر اعتراضات کے جوابات ریکارڈ پرموجود ہیں۔ غلطیاں کی ہیں تو اسے بھگتنا بھی پڑے گا۔