|

وقتِ اشاعت :   February 21 – 2023

بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ کے قریب کنوئیں سے خاتون سمیت تین افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں ، جاں بحق ہونے والی خاتون گراں ناز کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی ،ویڈیو میں گراں ناز نے قرآن ہاتھ میں لے کر دہائیاں دے رہیں تھیںاور نجی جیل سے رہائی کی اپیلیں کررہیں تھیں،وہ کہہ رہی تھیں کہ وہ بیٹی اور بیٹوں سمیت قید ہے، رہائی دلائی جائے۔ خاتون کا کہنا تھا کہ مجھے میرے رب کی قسم ہے، سردار عبدالرحمان کھیتران (صوبائی وزیر) نے مجھے جیل میں قیدکیا ہوا ہے، میری بیٹی کے ساتھ ہر روز زیادتی کر رہا ہے، میرے بیٹوں کو بھی قید کیا ہوا ہے، ہمیں کوئی آزاد کرائے۔

ویڈیو وائرل ہوئی تو خاتون نجی جیل سے نہیں بلکہ زندگی کی قید سے ہی رہا ہوگئیں، خاتون اور اس کے دو بیٹوں کی تشدد زدہ لاشیں بارکھان کے کنویں سے برآمد ہوئیں۔پولیس کا کہنا تھا کہ تینوں کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا جبکہ خاتون کے چہرے پرتیزاب ڈال کر مسخ کیا گیا۔خاتون کے شوہر خان محمد مری کاکہنا ہے کہ وہ جان جانے کے خوف سے روپوش ہیں،کنویں سے ملنے والی لاشیں اس کی بیوی اور بیٹوں کی ہیں، اب بھی اس کے 4 بیٹے اور ایک بیٹی سردار عبدالرحمان کھیتران کی قید میں ہیں۔ دوسری جانب کوہلو پولیس کی بے حسی بھی سامنے آئی ہے، لاشیں ملنے پر نہ ایف آئی آر کٹی اور نہ ہی میڈیکل کرایا گیا، مقامی مری قبائل نے نماز جنازہ پڑھی۔دوسری جانب سردار عبدالرحمان کھیتران نے 3 افراد کے قتل اور نجی جیل کے الزام کو مسترد کر دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نجی جیل اور 3 افراد کے قتل کا الزام ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازش ہے۔عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ میرے گھرکی گزشتہ دور حکومت میں تلاشی لی گئی، جیل ہوتی تو پتا چل جاتا، اب بھی اگرکسی کوشک ہے تو میرے گھر میں آکر دیکھ سکتا ہے، یہ بھی کہا کہ انہیں علاقائی سیاست کے حق سے محروم رکھنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے، بعض عناصرعلاقے کا امن خراب کرنے کے لیے میرے خلاف سازش کر رہے ہیں، بدنام کرنے کی سازش کے خلاف عدالت سے رجوع کروں گا۔دلخراش واقعے کے خلاف کوئٹہ میں وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا گیاہے دوسری جانب واقعے کے متعلق جے آئی ٹی بھی تشکیل دیدی گئی ہے۔

بہرحال اس افسوسناک واقعے سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں، یہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے جس کی طے تک جانا ضروری ہے اب حکومت کی تمام تر توجہ اس معاملے پر ہونی چاہئے کیونکہ پہلے سے ہی بلوچستان میں قبائلی نظام اور نجی جیلوں کے متعلق خبروں نے اس کے امیج کو بہت زیادہ متاثر کیا ہوا ہے۔ بلوچستان میں بسنے والے بلوچ اور پشتون قبائل کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ بھی کیاجاتا ہے اس طرح کے واقعات اقوام کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں یہ صرف حکومت تک کا معاملہ نہ رہے بلکہ بلوچ اور پشتون قبائل کے سربراہان بھی اس معاملے کے حوالے سے اپنا کردار اداکریں کہ یہ واقعہ کس طرح اور کیوں پیش آیا اور جو بھی اس میں ملوث ہو اسے ملکی قانون کے تحت سزا دلائی جائے۔ ایک طرف بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کی فریاد کی جاتی ہے۔

اوراس حوالے سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میںموجود قدآور شخصیات اپنے حلقوں میں ترقی نہیں چاہتے اور تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں اپنے لوگوں کو غلام بنائے رکھتے ہیں۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس سب کے لیے ہے کہ وہ کس طرح سے اس افسوسناک واقعے کے اصل محرکات کو سامنے لائینگے تاکہ حقائق سے سب آگاہ ہوسکیں اور یہ تاثر زائل ہوسکے کہ بلوچستان میں جنگل کاقانون ہے، لوگ اپنے ہی مشران کے ہاتھوں غلام ہیں ۔اب دیکھتے ہیں کہ بلوچستان کی قد آور شخصیات سیاست اور قبائلیت سے بالاتر ہوکر اس میں اپنا کیا کردار ادا کرینگے جو آگے چل کر تاریخ بن سکے ۔ البتہ پھر بات وہیں آجاتی ہے کہ اپنے خطے کو ظالمانہ اور فرسودہ نظام سے نجات دلانے کے لیے پہلے خودآگے بڑھنا ضروری ہے تاکہ بلوچستان کی قبائلی روایات پر سوالات نہ اٹھائے جاسکیں اور نہ ہی یہ ہماری بدنامی کاسبب بن سکیں۔