کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلوچستان میں لاپتہ افراد سمیت دیگر مسائل پر توجہ نہیں دی رہی ہیں، اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو بی این پی سینٹر ل کمیٹی کا اجلاس بلا کر وفاقی حکومت سے نکلنے اور بلوچستان حکومت کو ہٹانے کی تحریک لانے میں دیر نہیں کریگی،عام انتخابات میں تاخیر کی حمایت نہیں کرتے بی این پی کا موقف ہے کہ انتخابات آئین میں متعین کردہ وقت پر ہونے چاہیئں۔
یہ بات بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ، جنرل سیکرٹری واجہ جہانزیب بلوچ نے ہفتہ کو کوئٹہ پریس کلب کے باہر بی این پی کی مرکزی کابینہ اور پارلیمانی پارٹی کے صوبے میں جبری گمشدگیوں،،انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔
اس موقع پر وزیر مملکت ہاشم نوتیزئی، بی این پی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی، اراکین اسمبلی اختر حسین لانگو، ثناء بلوچ، میر اکبر مینگل، احمد نواز بلوچ، شکیلہ نوید دہوار سمیت مرکزی قائدین بھی موجود تھے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑنے کہا کہ صوبے میں لاپتہ افراد، جبری گمشدگی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ رہی ہیں گزشتہ روز بی این پی کے وفد نے وزیراعظم میاں شہباز شریف سے ملاقات کی اور انہیں صوبے کی صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا وزیراعظم نے سردار اختر جان مینگل سے رابطہ کر کے یقین دہانی کروائی ہے۔
وہ خود کوئٹہ آکر مسائل کا جائزہ لیں گے اور انکے حل کے اقدامات کریں گے۔انہوں نے کہا کہ بی این پی کی نظر صوبائی حکومت کی کارکردگی پر بھی ہے مبینہ طور پر ایک وزیر پر دو افراد کے قتل کا الزام ہے جس پر باقاعدہ احتجاج ہوا ہے،صوبے میں نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں جاری ہیں خواتین کو گھروں سے اٹھا یا جارہا ہے اگر یہی رویہ تو ہم اپنے اتحادیوں کو اعتما د میں لیکر آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کریں گے اور ہمیں حکومت کو ہٹانے میں دیر نہیں لگے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت کا بھی یہی رویہ رہا جیسے اس وقت ہے تو ہم سینٹرل کمیٹی کا اجلاس بلا کر اپنا لائحہ عمل مرتب کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جو کام ماضی میں ایجنسیاں کر رہی تھیں آج وہ سی ٹی ڈی کر رہی ہے کوئی بھی کاروائی خرابے کے بغیر نہیں ہوتی ہم آج بھی کہتے ہیں اگر کوئی مجرم ہے۔
تو عدالت میں اسکا جرم ثابت کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ماحل بلوچ کو گرفتار کر کے کہا گیا کہ وہ خود کش بمبار تھی چاہے مرکزی حکومت ہو یا صوبائی ہم نے ہمیشہ واضح کیا ہے کہ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد ہیں جس پر ہم کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ آنے والے چند دنوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا رویہ تبدیل نہ ہوا تو مرکزی میں حکومت چھوڑ سکتے ہیں او ر صوبے میں حکومت کی تبدیلی کے آپشن پر غور کر سکتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ملک عبدالولی کاکڑ نے کہا کہ سردار اختر جان مینگل کی سربراہی میں قائم لاپتہ افراد کمیشن نے 8فروری کو اپنی رپورٹ مرتب کر کے جمع کروا دی ہے ہم نے پی ڈی ایم کا حصہ بنتے وقت بھی اپنا چارٹر پیش کیا تھا بعض اوقات ہمارے خلاف پروپگنڈا کیا جاتا ہے کہ ہم صوبائی حکومت کا حصہ ہیں وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو جو 40ووٹ ملے ان میں سے کوئی بھی بی این پی کا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنے دور میں ہمیں دو وزراتوں اور 10ارب روپے کی پیش کش کی لیکن ہم نے اپنے اصولی موقف کو وزراتوں اور فنڈز پر ترجیحی دی جام کمال خان نے ذاتی عناد کی بنیاد پر بی این پی کے حلقوں میں سیاسی اور قبائلی مداخلت کی انہوں نے بی این پی کے رکن اسمبلی کے حلقوں میں صرف 12کروڑ روپے کے فنڈز دئیے خضدار میں سردار اختر مینگل کی مخالفت میں ایک غیر منتخب اور متعلقہ غیر شخص کو اڑھائی ارب روپے کے فنڈز جاری کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے بھی اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو ہم انہیں واضح کریں گے کہ ہم انکے ساتھ مزید نہیں چل سکتے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاست میں بات چیت کا عمل جاری رہتا ہے ہمارے فیصلے سینٹرل کمیٹی کرتی ہے جو بھی فیصلہ ہوا وہ سینٹرل کمیٹی کے ذریعے کریں گے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جہانزیب بلوچ نے کہا کہ ماحل بلوچ کو گھر سے گرفتار کرنے کے بعد کہا گیا کہ انہیں پارک سے گرفتار کیا گیا ہم سی ٹی ڈی کا موقف مسترد اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ماحل بلوچ کے خلاف مقدمہ کواش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور بی این پی اس کے حل کی جدوجہد جاری رکھے گی۔انہوں نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کی ورکنگ ریلیشن کو اتحاد کا نام نہیں دیا جاسکت ہم صوبے کے ہر مسئلے پر احتجاج کر تے آئے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بی این پی سیاسی جمہوری جماعت ہے ہم سمجھتے ہیں اسمبلیوں کو اپنی مدت سے آگے نہیں جانا چاہیے آئین پر عملدآمد کرتے ہوئے عام انتخابات مقررہ وقت پر ہونے چاہیئں۔