پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف سے قسط کے حصول کے لیے تمام تر شرائط ماننے کے باوجود قسط کا اجراء تاحال نہیں ہوسکا ہے، وزیرخزانہ کی جانب سے یہ بتایاجاتا ہے کہ اگلے ہفتے تک معاملات طے پائے جائینگے مگر ایک ماہ سے زیادہ کا وقت گزرگیا ہے، قسط پاکستان کو نہیں دی گئی ہے جبکہ دوست ممالک کی جانب سے بھی رقم پاکستان کو نہیں دی جارہی ہے ماسوائے چین کے کسی نے بھی رقم نہیں دی۔
بہرحال آئی ایم ایف کے شرائط کی منظوری اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافہ، ڈالر کی اونچی اڑان کے باعث ملک میں ہرروز مہنگائی بڑھتی جارہی ہے عام لوگوں کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ جس طرح سے اسحاق ڈار نے کرسی سنبھالی تھی تو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ جلد معاشی معاملات درست ہو جائینگے چونکہ پہلے بھی اسحاق ڈار کی بہترین حکمت عملی سے آئی ایم ایف سے رقم ملی، دوست ممالک نے بھی مدد کی جس سے ملک معاشی بحران سے نکل کر بہتری کی جانب گامزن ہوا۔ مفتاح اسماعیل چلے گئے تواسحاق ڈارآگئے اب آئی ایم ایف ناک رگڑوا کر اپنی ہرشرط منظور کرارہا ہے مگر قسط کا اجراء نہیں کررہا ہے جس کا بہت زیادہ اثر معیشت پر پڑرہا ہے۔ اس وقت مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
ملک میں ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 41.07 فیصد ہو گئی۔ جب کہ ایک ہفتے میں 32 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ مہنگائی کی مجموعی شرح 41.07 فیصد کی سطح پر پہنچ گئی ہے، مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ ہوا جب کہ 44 ہزار سے زائد ماہانہ انکم والے طبقے کے لیے مہنگائی کی شرح 42.42 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ادارہ شماریات کے مطابق آٹا،گھی، چینی، تازہ دودھ، بکرے کے گوشت، چاول اور نمک سمیت رواں ہفتے کے دوران 32 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا،8 اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوئی جب کہ 10 میں استحکام رہا۔ادارہ شماریات کے مطابق ایک ہفتے میں آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت بڑھ کر اوسطاً 1705 روپے ہوگئی، گھی، دال ماش، دال مسور، چاول اور نمک کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا جب کہ پیاز 22 روپے، لہسن 18 روپے فی کلو اور انڈے 16 روپے فی درجن سستے ہوئے۔
دوسری جانب اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط کی جانب بڑھنے کیلئے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کی کوشش میں حکومت نے جمعہ کو وفاقی کابینہ سے منظوری کے لیے ایک سمری سرکولیشن کے ذریعے بھیج دی تاکہ اضافی 11 ارب روپے حاصل کرنے کیلئے جی ایس ٹی کی شرح کو 18 سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کے لیے فہرست میں مزید اشیاء شامل کی جائیں۔ حکومت نے 25 فیصد کی اضافہ شدہ جی ایس ٹی شرحوں کی فہرست میں مزید اشیاء شامل کردیں جن میں تفریح اور نجی استعمال کیلئے کشتیاں یا بحری جہاز اور ہوائی جہاز، جیولری اور گھڑیاں شامل ہیں۔اب ان اشیاء کو اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے جن پر جی ایس ٹی کی اضافہ شدہ شرح وصول کی جائے گی، مقامی طور پر تیار کردہ موٹر گاڑیاں جنہیں عیش و آرام کی اشیاء کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے۔
صرف ایس یو ویز یا سی یو ویز کی کیٹیگری کی گاڑیاں، 14 سو سی سی یا اس سے اوپر کے انجن کی صلاحیت کی دیگر گاڑیاں اور ڈبل کیبن پر 25 فیصد کی زیادہ شرح سے ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ بہرحال جو ٹیکسز لگائے جارہے ہیں ان کا براہ راست تعلق آئی ایم ایف کے شرائط سے ہے مگر اس کا سیاسی نقصان سب سے زیادہ ن لیگ کوہورہا ہے، پی ٹی آئی نے جو واردات کی وہ اپنی جگہ مگر الیکشن سے قبل اگر معیشت کو بہتر نہ کیا گیا تو اس کا سیاسی نقصان ن لیگ کو ہوسکتا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران معیشت کس سمت جائے گی ؟ بہرحال حالات بہتر ہونے کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں کوئی معجزہ ہی ہوجائے تو الگ بات ہے۔