|

وقتِ اشاعت :   March 5 – 2023

ملک میں انتخابات کے حوالے سے تقریباََ تمام سیاسی جماعتیں آئین کے مطابق متفق دکھائی دیتی ہیں کہ آئین کی پاسداری ضروری ہے اس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے یہی باتیں کی جارہی ہیں کہ وہ الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ اس وقت ملک میں بہت سارے چیلنجز نے سراٹھالیا ہے اور وفاقی حکومت شدید تنقید کی زد میں ہے کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران ملکی معیشت میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے اور نہ ہی کوئی واضح پالیسی دکھائی دے رہی ہے جس سے حالات کے مطابق تجزیہ کیاجائے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران حالات بہتری کی طرف جائینگے بلکہ خود سیاسی جماعتیں یہ باتیں کہہ رہی ہیں کہ معاشی حالات الیکشن کے بعد بننے والی حکومت کے لیے بھی ایک چیلنج کے طور پر سامنے ہوگی ۔

البتہ پی ٹی آئی کی جانب سے بھرپور انتخابی مہم شروع کی گئی ہے اور اب عمران خان نے مہنگائی کو بھی اپنے بیانیہ میں شامل کرلیا ہے گزشتہ روز عوام کو مخاطب کرتے ہوئے بتارہے تھے کہ مہنگائی کی شرح کہاں تک پہنچی ہے اور یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر ہماری حکومت رہتی تو آج معیشت بہتر ہوتی یاد رہے کہ عمران خان نے ایک تقریب کے دوران خود یہ فرمایا تھا کہ میں وزیراعظم اس لیے نہیں بنا کہ ٹماٹر ، پیاز سمیت دیگر اشیاء کی قیمتوں کو کنٹرول کروں بلکہ میں مافیاز کے خاتمے کے لیے آیا ہوں جو ملک کو کئی دہائیوں سے لوٹ رہے ہیں مسلسل اسی بیانیہ کو ہی لیکر وہ چلتے رہے جب عمران خان کی کرسی گئی تو انہوں نے مبینہ سازشی بیانیہ کو ڈھال بنالیا البتہ اس پر جتنے یوٹرن لیے وہ سب کے سامنے ہے اب عمران خان نے سب کے ساتھ بات چیت کے لیے پیشکش کی ہے جس میں سیاسی جماعتوں سمیت اسٹیبلشمنٹ شامل ہے مگر جس طرح کا رویہ عمران خان نے پہلے اپنایا اس سے نہیں لگتا کہ ان سے کوئی بات چیت کرے نہ سیاسی جماعتیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ بات کرنے کے لیے تیار ہوسکتی ہے کیونکہ عمران خان اور اس کی جماعت نے مسلسل پروپیگنڈہ مہم چلایا اور اس نہج تک گئے کہ تمام مذاکرات کے دروازے خود ہی بند کردیئے اگر عمران خان کا رویہ سیاسی حوالے سے سخت گیر نہ ہوتا اور مسلسل الزام تراشی سے گریز کرتے تو شاید بات چیت کے امکانات کا راستہ کھل سکتا موجودہ ماحول میں ایسا کچھ نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔

عمران خان کی بات چیت اور سب کے ساتھ چلکر بیانیہ اس خوش فہمی کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مکمل پُرامید ہیں کہ پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں وہ کامیاب ہونگے اور وفاق میں دوبارہ حکومت بنائینگے کیونکہ وہ موجودہ مہنگائی اور بدترین معاشی حالات کے تناظر میں یہ سب کچھ سوچ رہے ہیں کہ عوام کا غصہ موجودہ حکومت پر ہے کہ ان سے معیشت سنبھل نہیں پارہی ہے مگر یہ بھی واضح ہے کہ آئی ایم ایف سے کے ساتھ ہونے والے وعدہ خلافی کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہے اور اب آئی ایم ایف قرض کی قسط دینے کے لیے مسلسل سخت شرائط رکھ رہی ہے جبکہ دوست ممالک کی جانب سے رقم بھی نہیں مل رہے ہیں حکومت کے سامنے یقینا یہ بڑا چیلنج اور مسئلہ موجود ہے مگر ان کے پاس یہ جواز کافی نہیں ہوگا کہ موجودہ تمام ترحالات کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہے۔ اگر پی ڈی ایم کی مشترکہ اتحاد چاہتی تو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد حکومت نہ لیتی اور ان پر یہ تمام تر مسائل کا ملبہ نہ آتا جس کی رگز میں اب موجودہ حکومت آچکی ہے۔

ن لیگ کے لیے پنجاب انتہائی اہم ہے اور پی ٹی آئی کی مکمل توجہ پنجاب پر ہے کیونکہ یہاں سے اکثریت لینے والی جماعت ہی وفاق میں آسانی سے حکومت بناسکتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس بیانیہ کے ساتھ عوام کے پاس جائے گی اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے مزید کیا حکمت عملی اپنائے گی تاکہ ن لیگ اپنی پوزیشن بناسکے۔اگر مجموعی طور پرسیاسی حالات کاجائزہ لیاجائے تو لگتا یہ ہے کہ پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کوئی ایک جماعت بھاری اکثریت سے کامیاب نہیں ہوگی بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں سمیت آزاد امیدواروں کی جیت بھی متوقع ہے ایسے میں پنجاب میں ایک پلڑا بھاری مشکل ہوگا اور پھر سیاسی توڑ جوڑ ہی ایک جماعت کو اوپر لاسکتی ہے جو ایک کمزور پوزیشن میں سب کو راضی کرکے چلنے پر مجبور ہوگی جس طرح ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔