سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی اچانک میڈیا کی زینت بننا حیران کن ہے اور اس سے بڑھ کر تعجب یہ ہے کہ ثاقب نثار نے گزشتہ روز نجی ٹی وی کے سینئر صحافی سے گفتگوکرتے ہوئے عمران خان، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض، سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ اور نواز شریف کاتذکرہ کیا ۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ثاقب نثار کی تاریخ ان سے جڑی ہوئی ہے انہوں نے جو فیصلے اپنے دور میں کیے اور ان کا جھکاؤ جس طرف رہا، جو رویہ وہ ججز، آفیسران، سیاستدانوں کے ساتھ رکھتے تھے انتہائی نامناسب تھا وہ ایک بھرم کے ذریعے اپنا رعب اوردبدبہ چاہتے تھے ۔ثاقب نثار کامعیار کچھ الگ ہی تھا من پسند حلقوں کے سیاستدانوں اور ججز کے ساتھ ان کا رویہ الگ جبکہ مخالفین کے خلاف آخری حد تک جاتے تھے، یہاں تک کہ ایک صوبائی وزیر جو اسپتال میں زیرعلاج تھے وہاں جہاں کر چھاپہ مارا اور مبینہ طور پر شراب کی بوتل برآمد کی۔
کیایہ ثاقب نثار کے اختیارات کی حدود میں آتا تھا اسی طرح عدالتی احاطے میں ایک جج کی تذلیل کرکے ان سے موبائل لیتے ہیں، عدالت کے اندر برملا اس بات کااظہارکرتے ہیں کہ تین چار اراکین اسمبلی کو تو ایسے ہی فارغ کردونگا یعنی عوام کے ووٹ سے آنے والے ایک منتخب رکن کی ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں یا پھر پارلیمان کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے تھے بظاہر تو یہی لگتا ہے۔
بہرحال انہوں نے صحافی سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کو مکمل اور تمام معاملات پر صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا، عمران خان کو 3 نکا ت پر صادق اور امین قرار دیا تھا۔ اکرم شیخ نے عمران خان سے متعلق 3 نکات لکھ کر دیے کہ ان پر فیصلہ کیا جائے، تینوں نکات پر عمران خان صادق اور امین ثابت ہوئے تھے، تین نکات کو واضح طور پر بتاتے تو زیادہ دلچسپ رہتا کہ عمران خان کی تین خصوصیات کیا تھیں؟ جسٹس (ر) ثاقب نثار نے کہا کہ آج کل عدالتی فیصلوں پر وہ بات کر رہے ہیں جنہیں قانون کی زیر زبر معلوم نہیں، جو شخص آج عدالتوں پر حملہ آور ہے وہ کبھی عدالتوں کا پسندیدہ رہا ہے، صرف ایک مقدمے کے علاوہ اسے ہمیشہ عدالتوں سے ریلیف ہی ملتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب چیف جسٹس نہیں بنا تھا تو نواز شریف نے مختلف حلقوں میں کہنا شروع کیا کہ یہ اپنا چیف ہے، میں نے پانامہ کیس میں خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا اور نااہلی کیس میں معیاد سے متعلق اوپن نوٹس کردیا تھا کہ جو بھی معاونت کرنا چاہے کرے، نااہلی کی معیاد کا تقرر آئین و قانون کی روشنی میں کیا۔ نواز شریف کے متعلق تو کھل کر ثاقب نثار نے بات کی اور عمران خان کے حوالے سے بہت ہی دبے لہجے میں صادق اور امین کے متعلق بتایا جو واضح تضاد ہے جس سے سیاسی جھکاؤ کا پتہ چلتا ہے اور اس حوالے سے برملا طور پریہ کہاجاسکتا ہے کہ ثاقب نثار کے لیے عمران خان لاڈلے تھے یا نہیں اورنواز شریف کے حوالے سے ان کی سوچ کیا تھی؟ سابق چیف جسٹس نے بتایاکہ میرا وٹس ایپ ہیک ہو گیا ہے، ابھی تک ریکور نہیں ہوا، خدشہ ہے کہ میرے موبائل ڈیٹا کو کسی خاص مقصد کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے تاہم میرا وٹس اپ ہیک کرنے والوں کو شرمندگی ہی ہوگی، اس سے قبل بھی میری مختلف ویڈیوز کو جوڑ کر ایک آڈیو بنائی گئی تھی۔
کسی کی نجی زندگی میں مداخلت چوری کے زمرے میں آتا ہے، ثاقب نثارکو وٹس ایپ کے متعلق خدشات کا ذکر نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ خدشے کی بات اس وقت کی جاتی ہے جس سے یہ خوف ہو کہ کچھ نہ کچھ اس سے برآمد ہوسکتا ہے ؟البتہ ان کے دور میں جوکچھ ہوا وہ ریکارڈ پر موجود ہے مزید کیا انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔جسٹس (ر) ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ پی کے ایل آئی کی فارنزک رپورٹ کا اگر کوئی جائزہ لے تو سر پکڑ کر بیٹھ جائے، پی کے ایل آئی کے سربراہ کو ایک پیر کے کہنے پر لگایا گیا۔کیا ثاقب نثارنے پی کے ایل آئی کے سربراہ کے ساتھ جو واردات کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی ہے؟ پی کے ایل آئی کے سربراہ نے اس پر کھل کر بات کی تھی اور بتایاتھا کہ کس طرح سے ثاقب نثار اپنے بھائی کے لیے یہ سب کچھ کررہے تھے اور ایک بہترین ادارے کو تباہ کرکے رکھ دیا محض اپنے بھائی کی خواہشات کی تکمیل کے لیے اور اسے کوئی پوزیشن دینے کے لیے سارا ڈرامہ رچایاگیا۔
اگر کسی پیر کے کہنے پر لگایا تھاتو اس پیر کا نام بھی بتادیتے مگر سب ابہام میں ہی رکھا ہے۔ جسٹس (ر) ثاقب نثار سے سوال کیا گیا کہ پاناما کیس میں آپ پر نواز شریف کو نااہل کرانے کے لیے جنرل (ر) فیض نے دباؤ ڈالا؟ اس پر ثاقب نثار نے کہا کہ جنرل (ر) فیض کون ہے جو مجھ پر دباؤ ڈالتا؟ میں جنرل (ر) باجوہ سے اس دعوے کے بارے میں بات کروں گا۔اب ثاقب نثار سابق آرمی چیف سے کیوں اس حوالے سے بات کرینگے، خود اپنی وضاحت دیں اسے جب بات کرنے کا موقع ملا تو کھل کر بات کرتے،سابق آرمی چیف جنرل(ر) قمرجاوید باجوہ سے مل کرکس چیز کا شکوہ کرنا ہے ۔ ثاقب نثارنے کہا کہ وہ اب کسی کو انٹرویو نہیں دینگے بلکہ ایک کتاب لکھیں گے جس میں وہ 90ء کی دہائی سے لیکر ان کے ریٹائرمنٹ تک جو کچھ ہوا سب سامنے لائینگے۔ بہرحال کتاب دلچسپ ہوگی یا نہیں مگر ابھی جوباتیں انہوں نے کیں، وہ بہت سی معلومات خود ہی فراہم کررہے ہیں اب کتاب سے کیا نکلے گا یہ توکتاب چھپنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔