ملک میں عام انتخابات ایک ساتھ ہونگے یا پھر پنجاب اور کے پی میں پہلے اور پھر بعد میں دیگرانتخابات کئے جائینگے، اس وقت یہ ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے ، خاص کر پنجاب میںہونے والے انتخابات کی اہمیت زیادہ ہے کیونکہ جو جماعت بھاری اکثریت سے پنجاب سے کامیاب ہوگی وہ مرکز میں بآسانی حکومت بناسکے گی۔ وفاقی حکومت کے نمائندگان کی جانب سے بارہا یہ کہاجارہا ہے کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں جس میں یہ جواز پیش کیاجارہا ہے کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے الگ الگ انتخابات کرانے سے حکومت پر معاشی بوجھ آئے گا کیونکہ اس وقت معاشی حالات بہتر نہیں ہیں۔ بہرحال عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے تاریخ دیدی ہے مگر پھر بھی ماحول بنتادکھائی نہیں دے رہا۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ملک میں انتخابات نئی ڈیجیٹل مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے تحت ہونے چاہئیں، نگران حکومت کے بغیر انتخابات پر انگلیاں اٹھیں گی۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے وزارت خزانہ، داخلہ اور دفاع کے تحفظات برقرار ہیں، شخصیات سے متعلق عدلیہ کے ادارے میں فرق دیکھا گیا، لوگ کہتے ہیں کہ آپ تنقید کریں گے تو توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے، تنقید ہو تو اداروں کے سربراہوں کوخود احتسابی کرنی چاہیے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ وفاقی وزیرقانون ہی صرف یہ باتیں نہیں کررہے بلکہ حکومتی نمائندگان کی جانب سے بارہا یہ بتایاجارہا ہے کہ الیکشن ایک ساتھ ہوجائیں تب ہی بہتر ہوگا وگرنہ حکومتی جیت پر اپوزیشن سوال اٹھائے گی ،اگر اپوزیشن جیت جائے گی پھربھی تنازعہ کھڑا ہوگا ۔اس وقت معاشی صورتحال بہتر نہیں ہے مگر سیاسی استحکام بھی دکھائی نہیں دے رہا۔
ملک میں روز ایک نیاسیاسی مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے ۔ عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے زمان پارک میں تماشالگایاگیا ہے پولیس کی ٹیم جاتی ہے تو بتایاجاتا ہے کہ عمران خان زمان پارک میں موجود نہیں ہیں جبکہ کچھ دیر بعد عمران خان زمان پارک سے ہی برآمد ہوکر کارکنان سے خطاب کرتے ہیں ۔جب نیب کی ٹیم جاتی ہے تو زمان پارک کی سیکیورٹی عملہ نیب ٹیم کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیتا ہے کہ لیگل ٹیم موجود نہیں ہے جب وہ آئینگے تب آپ کو بھلائینگے۔ عمران خان نے قانون کا مذاق بنایاہوا ہے اوریہ لاڈلہ پن عمران خان کو ریلیف ملنے کی وجہ سے آیا ہے جب عمران خان حکومت میں نہیں تھے تو انہیں بہت لاڈ اور پیار کے ساتھ حکومت میںلانے کی تیاری کی گئی، جب عمران خان کے ہاتھ حکومت آئی تو ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے ماسوائے اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے اور آئے روز گرفتاریوں کے علاوہ انہوں نے کیا کیا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں ایساکوئی کارنامہ نہیں دکھایاجسے بطور مثال پیش کیا جاسکے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کو رول بیک کیا جس کا خمیازہ آج تک ملک بھگت رہا ہے۔بہرحال اس وقت انتخابات کا انعقاد ایک درد سر بنا ہوا ہے ،ن لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز ہر عوامی اجتماع کے دوران یہی کہتی دکھائی دیتی ہیں کہ پہلے انصاف ہوگا پھر انتخابات ہونگے ،جو کچھ ماضی میں ہمارے ساتھ کیا گیا اس کا ازالہ ہونے کے بعد آگے بڑھیں گے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کا اصرارکیاجارہا ہے اور اب تو اپوزیشن بھی یہی بات کررہی ہے کہ اگر ایک ساتھ عام انتخابات کرانے ہیں تو جلد ہی تاریخ دی جائے پھر ہم بھی تیار ہیں اگر تاخیر کی جاتی ہے تو ہم کسی صورت بات نہیں کرینگے ۔
یہ ضرور ہے کہ عمران خان نے موجودہ آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش کااظہار کیا ہے مگر انہیں کوئی سگنل نہیں مل رہا۔ اب ملاقات کس بنیاد پر اور کیوں کرنی ہے یہ سب کو معلوم ہے عمران خان پہلے سابق آرمی چیف کی ہر جگہ تعریف وتوصیف کرتے دکھائی دیتے تھے لیکن اب ان پر شدید قسم کے الزامات لگارہے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان خلیج موجود ہے اور فی الوقت ماحول ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے کہ بات چیت ہوسکے ۔موجودہ آرمی چیف نے ایک بار پھر واضح پیغام دیا ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر مسائل حل کریں ہماراسیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شاید عمران خان کی امید اور توقع یہی ہے کہ عام انتخابات ایک ساتھ ہونے سے ان کی جیت کی یقین دہانی ہوجائے تو پھر انہیں کوئی مسئلہ نہیں، اگر ایسا ماحول نہیں بنتا تو وہ مکمل انقلابی بن کر جمہوریت پر دنیا کے دیگر ممالک کی مثالیں دیتے رہیں گے ۔