|

وقتِ اشاعت :   March 9 – 2023

یوں تو میں علم سیاسیات کی طالبہ ہوں لیکن اپنے معاشرے میں موجوں مسائل کے انبار کی وجہ سے ایک مینڈک کی حیثیت رکھتی ہوں جو اپنی کنویں کو ہی ساری دنیا سمجھتی ہے۔ہمسایہ کے جابر زنجیروں نے ہمیں ایسا جھکڑا ہوا ہے کہ مجھ جیسی کم علم رکھنے والی ادنیٰ سی بلوچ آئے رو اپنے اردگرد دل دہلا دینے والی واقعات کی وجہ سے باہری دنیا کے متعلق جانکاری رکھنے سے قاصر ہے۔
کل کسی عزیز نے اقوام متحدہ پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا استفسار کیا۔ سوچا اس بارے میں اپنے مشاہدات کا نقشہ کھینچوں، لیکن چونکہ میری سلگتی سرزمین پر رہ کر اپنے لوگوں، اپنی مادر وطن اور اس میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر تبصرہ کرنا مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، کیونکہ ہمسایوں سے زیادہ ہمیں اپنے آستینوں میں چھپے سانپوں نے کئی بار ڈسا ہے۔
بات ہورہی تھی اقوام متحدہ کی جسے قائم ہوئے 80 سال یا شاید اس سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران اقوام متحدہ کوئی ایک جنگ بھی روک نہیں سکا ہے۔ 1946 سے 2020 کے دوران تقریباً 570 جنگیں ہوئی ہیں جن میں کم از کم 1 کروڑ 47 لاکھ 7 ہزار 718 شہریوں اور فوجیوں کی اموات ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ صرف بک بک کا ایک ٹھکانہ ہے جو محض تاثر ہی دے سکتا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔
رسم دنیا ہے کہ قانون اور اخلاقیات صرف طاقتور کی چلتی ہیں۔وہی قانون اور اخلاقیات مرتب کرتا ہے اور وہی ان کو جب چاہے پامال کرتا ہے۔یہ طاقت ہی ہے جس کی وجہ سے عربوں کے درمیان اسرائیل دھڑلے سے قائم ہے اور یہ طاقت ہی ہے جس کی وجہ سے انڈیا کشمیر کا حصہ پاکستان سے اور پاکستان انڈیا سے لینے سے قاصر ہے. یہ طاقت ہی تھی جو نیٹو ممالک افغانستان اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا گئے اور یہ طاقت ہی ہے جو شام میں خانہ جنگی قائم رکھی ہوئی ہے۔ عالمی منظر نامے میں اپنی طاقت کی بنا پر ہی چین ایغور مسلمانوں پر اپنا ایجنڈا مسلط کر رہا ہے اور مسلم ممالک کی کمزوری ہی ہے جو وہ ان کے حقوق کی بات نہیں کر سکتے۔یہ طاقتور ممالک کا اثر و رسوخ ہی تھا کہ ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان جیسی عیسائی ریاستیں چند سال پہلے وجود میں آ گئیں۔
اقوام متحدہ کے سارے قانون طاقتور ریاستوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ جو طاقت کے بغیر ان قانونی و اخلاقی حقوق کی جدوجہد میں مصروف ہیں وہ ایک لاحاصل مقصد میں خود کو کھپا رہے ہیں۔
اس اصول کو ذہن نشیں کر لیں کیونکہ اگلے چنددنوں میں کچھ ایسے موضوعات پر لکھنے کا ارادہ ہے جن میں اس اصول کا عمل دخل ہے۔
چین میں بسنے والے ایغور مسلمانوں پر چینی حکومت کی جانب سے گزشتہ ستر برس سے مظالم جاری ہیں۔ یہ ظلم ساری دنیا کے سامنے ہو رہا ہے مگر اقوام متحدہ اس پر سوال نہیں اٹھا رہا، کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہے۔ آخر کیوں؟ اس لئے کہ الزام عوامی جمہوریہ چین پر لگ رہا ہے۔ چین جو ایک بڑی صنعتی طاقت ہے اور اس کے دنیا کے اکثر ممالک خصوصاً مسلمان ممالک کے ساتھ مضبوط معاشی تعلقات ہیں۔
عالم اسلام اقوام متحدہ کی طرف سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع کو طے کرانے میں ناکامی پر مشتعل ہے۔ اس مسئلے کو 75 برس گزر چکے اور اقوام متحدہ، مشرق وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک علاقہ بنانے کی کوششوں میں بھی ناکام رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ناکامی کا آخری ثبوت شامی حکومت کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف عدم کارروائی ہے۔مختصراً یہ کہ کمزور اقوام اور چھوٹی قوتوں کو اپنے مسائل کے منصفانہ حل کیلئے اقوام متحدہ کے انتظار میں بیٹھنے کے بجائے اپنی الگ پہچان اور قوت پیش کرنی ہوگی۔