سیاسی عدم استحکام، آئی ایم ایف کارویہ، پی ٹی آئی کی غیرقانونی حرکتیںملک میں اس وقت جو سیاست چل رہی ہے اس کا بڑا اثر معیشت پر پڑرہا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ایک جماعت نے پورے ملک کو یرغمال بناکر اپنی پالیسی مسلط کرنے کی کوشش کی ہوچاہے وہ اپوزیشن یا حکومتی جماعتیں ہو ں۔جب بھی بڑے مسائل سامنے آئے تو انہیں حل کرنے کے لیے تمام جماعتیں ایک پیج پر دکھائی دیں ۔
یہ ایک الگ المیہ ہمارے ہاں رہا ہے کہ سیاسی انتقامی کارروائیوں کے ذریعے پارلیمان کو بے اثر کیا گیا پھر اس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں کہ پارلیمان جو قانون سازی کرتا ہے آئین میں ترمیم کرتا ہے اب خود پارلیمان میں بیٹھے حکومتی واپوزیشن شخصیات قوانین کی الگ الگ تشریح کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں یقینا ان کا اشارہ عدلیہ کی طرف ہے کیونکہ بعض فیصلے ایسے ہوئے کہ جس سے یہ تاثر ضرور گیا ہے کہ کسی کو ریلیف مل رہا ہے۔
تو کسی کو گھسیٹا جارہا ہے۔ بہرحال کسی بھی جمہوری ملک میں پارلیمان سپریم ہوتا ہے اور آئینی ادارے صرف اپنے انہی اختیارات کے تحت کام کرتے ہیں جو انہیں آئین میں دی گئی ہیں جس میں پارلیمان سمیت تمام ادارے آتے ہیں مگر سیاسی مفادات کی اس کشمکش نے ملک کو بحران سے دوچار کرکے رکھ دیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام معاشی صورتحال پر اثرانداز ہورہا ہے۔
اب کیا حکومت کے ساتھ اپوزیشن بیٹھ کر بات کرے گی،ایسا لگتا نہیں ہے کیونکہ پی ٹی آئی اپنی لائن لے کر سیاست کررہی ہے اور تمام سیاسی ڈائریکشن کو ون مین عمران خان ہی چلارہے ہیں۔ اب سینیٹ میں بھی یہ بات وزیراعظم میاںشہباز شریف نے کہہ دی ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے کڑے شرائط ماننے کے باوجود بھی قسط ریلیز نہیں کی جارہی ہے اس کی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ گزشتہ روز سینیٹ اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ملک مشکل حالات کا شکار ہے، موجودہ صورت حال میں سب کو مل بیٹھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔
ماضی میں بھی سب نے مشکل حالات میں مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا ہے، ماضی میں شدید اختلافات کے باوجود قوم اکٹھی ہوئی ہے۔ سینیٹ نے پہلی مرتبہ 1973 میں چاروں صوبوں کو برابر حقوق دینے کا تاریخی کام کیا، آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر رہنماؤں نے تاریخی کام کیا، سینیٹ نے قانون سازی یا دیگر شعبوں پر محنت اور سنجیدگی سے ذمہ داری ادا کی۔انہوں نے کہا کہ 11 ماہ سے مشکلات سے گزر رہے ہیں، ایسی باتیں سنی ہیں جن کا ذکر نہیں کر سکتا، قومیں وہی زندہ رہتی ہیں جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کے لیے محنت کرتی ہیں۔
معاشی نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے، اگر سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو معاشی استحکام ایک خواب ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سب وزراء ملک کو مشکلات سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم نے آئی ایم ایف کی بہت کڑوی شرائط پوری کر دی ہیں، چند دنوں میں بورڈ میں یہ معاملہ جانا چاہیے، اب تک تاخیر میں اپنوں کا قصور ہے کہ اتنا عدم استحکام پیدا کر دو، آئی ایم ایف نے ہمیں سیاسی عدم استحکام ٹھیک کرنے کا ہرگز نہیں کہا لیکن وہ اندھے نہیں سب دیکھ رہے ہیں۔
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے موجودہ صورتحال پرکھل کر بات کی ہے مگر کیااس کا اثر اپوزیشن لے گی لیکن اس کے سیاسی رویے سے بالکل نہیںلگتا کیونکہ پی ٹی آئی نے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے روگردانی کی اور آج آئی ایم ایف دباؤ بڑھاتاجارہا ہے جبکہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے شاید دوست ممالک بھی گارنٹی نہ دینے کا سوچ رہے ہیں۔ یہ تجزیہ وزیراعظم کی باتوں سے ہی اخذکیاجاسکتا ہے البتہ موجودہ حالات کا حل صرف آئین وقانون کی بالادستی پر ہے بات چیت ضرور ہونی چاہئے مگر طاقت کے زورپر کسی کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے سے ریاست کمزور ہوجاتی ہے ۔ کل پھر دوسری جماعتیں بھی یہی راستہ اپنائینگی جس کا مستقبل میں نتائج خوفناک نکلیں گے۔