چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ایک بارپھر عدالت سے ریلیف لینے میں کامیاب ہوگئے۔ مسلسل عمران خان کو ریلیف مل رہا ہے جس پر حکومتی نمائندگان کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے کہ ہم صرف کچھ تاخیر کرتے یا حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کرتے تو ہمیں اس طرح کی ریلیف فراہم نہیں کی جاتی تھی بلکہ فوری ہمارے وارنٹ گرفتاری جاری کئے جاتے تھے ۔ البتہ اس وقت عمران خان طاقت کی سیاست کررہے ہیں عام لفظوں میں اگر کہاجائے پاور پالیٹکس تو غلط نہ ہوگا ۔
جو کچھ زمان پارک میں ہوا پیشی کے دوران واقعات رونما ہوئے اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ عمران خان کس طرح کی پلاننگ کرکے آگے بڑھ رہے ہیں اور باقاعدہ منظم طریقے سے ذاتی طور پر اس تمام تر تماشے کا ماسٹر مائنڈ عمران خان خود ہیں۔ عمران خان سائفر سازش سے لے کر اپنے قتل کے منصوبے اور پیشی کے دوران جان کے خطرات کی جو بھی مہم چلاتے ہیں اس کا فیصلہ وہ خود کرتے ہیں کسی سے مشورہ وہ نہیں کرتے اوراسے مقبول بنانے کے لیے پوری سوشل میڈیا بریگیڈ کو لگادیتا ہے۔
اب تک کے حالات کو اگر دیکھاجائے تو عمران خان سیاسی حوالے سے حکومت سے بازی لے جا چکے ہیں اور عمران خان جب حکومت میں تھے تب بھی وہ اپوزیشن پر حاوی ہی رہ ہیں۔ عمران خان کی خود اعتمادی مزید بڑھ رہی ہے اور اب حکومتی حلقوں میں یہ کھلبلی مچ گئی ہے کہ جس تیزی کے ساتھ عمران خان کے حق میں حالات جارہے ہیں آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں پی ٹی آئی معرکہ مار لے گی۔ دوسری جانب بات چیت کا جوتذکرہ چل پڑا ہے کہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ملکی صورتحال پر مذاکرات ہونگے ایسا بالکل پی ٹی آئی کے رویہ سے نہیں لگتا۔
عمران خان کے بیان اور فواد چوہدری کی مزید پیشرفت کے متعلق بات کرنا یہ سب ان کی پلاننگ کا حصہ ہے کیونکہ عمران خان صرف اسٹیبشلمنٹ سے ہی بات کرنا چاہتے ہیں ،وہ حکومت کو کسی کھاتے میں نہیں لاتے اوریہ بات حکومت کے اندر موجود اہم شخصیات بھی جانتے ہیںاور خود چند وفاقی وزراء اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ عمران خان اپنے دور حکومت میں ہمارے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تھے ،پھر موجودہ حالات میں وہ کس طرح سے ہمارے ساتھ بات چیت کرینگے ان پر بھروسہ نہیں کیاجاسکتا۔ بہرحال جس طرح حالات کا ذکرکیا گیاان کا اندازہ موجودہ عدالتی ریلیف سے ہی لگایاجاسکتا ہے۔ گزشتہ روزچیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان توشہ خانہ کیس میں گاڑی میں ہی عدالت میں پیشی کے لیے حاضری لگا کر جوڈیشل کمپلیکس سے واپس روانہ ہو ئے۔
عمران خان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے پر پی ٹی آئی کے کارکن بھی بڑی تعداد بھی وہاں پہنچ گئے جبکہ کارکنوں نے بھی احاطہ عدالت میں جانے کی کوشش کی، پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کارکنوں کو پیچھے ہٹانے کے لیے لاٹھی چارج کیا گیا۔شبلی فراز اور فرخ حبیب بھی پولیس کی لاٹھی چارج کی زد میں آئے، بعد ازاں پی ٹی آئی رہنماء شبلی فراز کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا اور پھر کچھ دیر بعد انہیں عدالت کے کہنے پر رہا کر دیا گیا۔عمران خان کے وکیل بابر اعوان کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا گیا کہ بتائیں ایسی صورت حال میں کیا کیا جائے، عمران خان کو گاڑی میں ہی عدالتی حاضری لگانے کی اجازت دی جائے۔
جس پر سیشن جج ظفر اقبال نے عمران خان کی گاڑی میں حاضری لگانے کی استدعا منظور کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سے گاڑی میں ہی عدالتی حاضری کے دستخط لے لیے جائیں۔ کارکنوں کی جانب سے جوڈیشل کمپلیکس سے باہر نہ جانے پر عمران خان گاڑی میں ہی عدالتی حاضری لگا کر واپس چلے گئے جبکہ پی ٹی آئی کے مشتعل کارکنوں نے عدالت کے باہر لگے بیرئیر توڑ دئیے اور ایک گاڑی کو بھی آگ لگا دی۔ یہ ایک چھوٹی سی جھلک ہے کہ عمران خان اس وقت طاقت پر ہی یقین رکھتے ہیں کہ ان کی بات اسی طرح سے ہی سنی جاسکتی ہے اور ان کا ہدف اسٹیبلشمنٹ ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے بات چیت ان سے کی جائے مگر اب تک جو کچھ پی ٹی آئی کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف پروپیگنڈہ کیاگیا ہے اس سے نہیںلگتا کہ بات چیت کے لیے فی الحال کوئی دروازہ کھل سکتا ہے ۔ اب آنے والے دنوں میں مزید سیاسی حالات واضح ہوجائینگے کہ عمران خان اپنے بچھائے ہوئے بساط میں اپنااسکور کرجائینگے یاپھر کسی بھی وقت عمران خان کو دھچکے کا سرپرائزمل سکتا ہے۔