بلوچستان میں سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال سب کے سامنے ہے کہ کس طرح کے مسائل موجود ہیں۔ اسکول خستہ حالت میں ہیں،ان میں بنیادی سہولیات موجود نہیں، اساتذہ نہیں، تعلیم پر خطیر رقم مختص کرنے کے باوجود کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے، آج بھی لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں، اساتذہ کی تعدادنہ ہونے کے برابر ہے جہاں اساتذہ کی ڈیوٹی ہے۔
وہ اپنے فرائض سے غفلت برتتے ہیں جو ناقابل معافی جرم ہے،ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا ضروری ہے کیونکہ اساتذہ کی غیر حاضری کی وجہ سے بچوں کی دلچسپی تعلیم سے ہٹ جاتی ہے اور وہ اسکول جانے سے گریز کرتے ہیں پھر مجبوراََ والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرکے ان کے بہترین مستقبل کافیصلہ کرتے ہیں۔ افسوس کا عالم ہے کہ گھوسٹ ٹیچروں کی بھرتیاں بھی سیاسی بنیادوں پر کی جاتی ہیں جو ڈیوٹی نہیں دیتے پھر یونین کے ذریعے اپنی نوکریاں بچاتے ہیں اور پھر صوبے کے خزانے پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ یہ بات سب پر عیاں ہیں کہ بلوچستان خسارے کابجٹ پیش کرتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے ۔
مگر افسوس کہ اساتذہ جیسے اہم عہدوں پر تعینات لوگوں کو فرق ہی نہیں پڑتا۔ البتہ یہ بھی نہیں ہوناچاہئے کہ جب اہل افراد بطور اساتذہ تعیناتی کے لیے جب ٹیسٹ اور انٹرویو دیتے ہیں تو ان کی تعیناتی کے آرڈرز کو روکا جائے بلکہ فوری ان کی بھرتی عمل میں لائی جائے تاکہ سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سلسلہ جاری رہے۔کئی عرصے سے ٹیسٹ دینے والے اساتذہ اپنے آرڈر لیٹر کے لیے سراپااحتجاج ہیں خاص کر دور دراز علاقوں کے اسکولوں میں تو اساتذہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہرحال بلوچستان ہائیکورٹ نے اس حوالے سے کیس کی سماعت کی۔بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز جسٹس عبداللہ بلوچ اور جسٹس اقبال احمد کاسی پر مشتمل بینچ نے محکمہ تعلیم سے متعلق دائر کی گئی مختلف درخواستوں پر فیصلہ سنادیا۔معزز عدالت نے سی پی نمبر1065/2022 231/2022 اور1814/2012یکساں حقائق سے متعلق سوالات اورقانون پر مبنی ہونے کی بناء پر اس فیصلہ کے ذریعے نمٹا دیئے۔
معزز عدالت نے سی پی نمبر231/2022 میں حکومت بلوچستان اور جواب دہندگان کو حکم دیا کہ وہ ضلع آواران کے تمام بند اسکولوں کو فعال کریں اور پورے بلوچستان بالخصوص ضلع آواران میں مرد و خواتین اساتذہ کی خالی اسامیاں تمام تر اقدامات اٹھاتے ہوئے تین ماہ کے اندر پُر کر یں۔ مذکورہ سی پی کے حقائق کے مطابق پورے ضلع آواران بشمول تحصیل جھاؤاورماشکے میں 381سرکاری اسکول ہیں جن میں 6 17 سے زائد سکول عرصہ دراز سے بند پڑے ہیں جس کے باعث ضلع کے باشندے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ علاوہ ازیں ضلع آواران میں گریڈ9 تا15کی مردوخواتین کے لیے581خالی آسامیاں موجود ہیں جبکہ گریڈ17کی مردو خواتین کے لیے 276 خالی اسامیاں مختلف اسکولوں میں موجود ہیں ان مسائل کے حل کے لئے ضلع کے باشندوں نے جواب دہندگان تک رسائی کی لیکن ان کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین اور معزز عدالت عالیہ کے 86بلوچستان PLD214 کے فیصلہ کے تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ ریاست رنگ و نسل، مذہب،قومیت،جنس جائے پیدائش کے امتیازات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے تمام شہریوں کو تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دار ہے، عدالت نے سی پی نمبر1065/2022اور 1814/2012 میں فیصلہ سناتے ہوئے جواب دہندگان کو حکم دیا کہ وہ درخواست گزار سمیت ان تمام امیدواروں کے تعیناتی کے فوری احکامات جاری کر دیں۔
جنہوں نے (EST،B-15) کے ٹیسٹ اور انٹرویوز کے لئے کوالیفائی کیا تھا اور جن کی ڈیپارٹمنٹل ریکروٹمنٹ کمیٹیز نے تعیناتی کی سفارش کی ہے۔ مذکورہ بالا آئینی درخواستیں پورے بلوچستان کی فیمیل ایلیمنٹری سکول سکول ٹیچر ز(ESTB-15)کی تعیناتیوں سے متعلق تھیں جہاں جواب دہندگان نے 18 ستمبر 2020 کو ایک پریس پبلیکیشن کے ذریعے بلوچستان کے ہر ضلع میں (ESTB-15) پوسٹوں کو پُر کرنے کے لئے اہل امیدواروں سے درخواستیں طلب کی تھیں، عدالت کی جانب سے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد عیاں ہوا کہ درخواست گزاروں اور دیگر امیدواروں نے مقررہ وقت میں ان پوسٹوں کے لیے درخواستیں دیں، ان درخواستوں کی جانچ پڑتال کے بعد بذریعہ این ٹی ایس ٹیسٹ و انٹرویو منعقد ہونے تھے لیکن 9ماہ گزر جانے کے بعد این ٹی ایسNTS ٹیسٹ منعقد کروانے میں ناکام رہی جس کے بعد کنڈیڈیٹس ٹیسٹنگ سروس پاکستان کو یہ ٹھیکہ دیا گیا جس نے یہ ٹیسٹ منعقد کروائے۔ درخواست گزاروں سمیت دیگر امیدواران نے یہ ٹیسٹ کوالیفائی کیا اور ہر ضلع کی ڈی سی آر(DCR) نے انٹرویوز لیا اور تعیناتیوں کے لیے اپنی سفارشات جمع کروائیں لیکن جواب دہندگان نے کسی نہ کسی بہانے سے درخواست گزاروں کی تقرریوں کے خطوط کوئی معقول وجہ بتائے بغیرروک دیئے۔
معززعدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ یقینی طور پرکسی بھی محکمہ کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ درخواست گزاروں کے حق میں تقرری کے احکامات جاری کرنے سے انکار کرے یا اسے روکے کیونکہ پبلکیشن میں ایسی کوئی شرط نہیں تھی اور نہ ہی اس میں درخواست گزاروں کی کوئی غلطی ہے جو بھرتی کے عمل سے گزرے اور متعلقہ ریکروٹمنٹ کمیٹیوں نے ان کے ناموں کی سفارش کی،عدالت کو اس امر سے مطلع کیا گیا کہ ان درخواست گزاروں کے علاوہ متعلقہ ریکروٹمنٹ کمیٹیوں کی جانب سے متعدد امیدواروں کی سفارش کی گئی تھی لیکن ان میں سے صرف موجودہ درخواست گزاروں نے درخواستیں دائر کی ہیں، عدالت نے کہا کہ قانون کا مینڈیٹ ہے کہ مساوی افراد کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہئے لہذا اس طرح کی صورتحال سے دوچار فردیکساں سلوک کا مستحق ہے۔
کیونکہ یہ ابتدائی اور بنیادی اصول ہے جو قانون کے تحت مبنی بر انصاف ہے وہ تمام افراد جن کی متعلقہ DRCS نے سفارش کی ہے اگرچہ اس کیس میں پارٹی نہیں ہیں لیکن وہ ان درخواست گزاروں کے ساتھ ایک صف میں کھڑے ہیں لہذا وہ بھی اسی سلوک کے مستحق ہیں اور مساوی سلوک کا اصول ان کا حق ہے لہذا زیر بحث لائی گی وجوہات اور عوام کے وسیع تر مفاد میں مذکورہ بالا آئینی درخواستوں کی اجازت دیتے ہوئے اس فیصلہ کا اطلاق ان تمام امیدواروں پر بھی ہوگا جنہوں نے ٹیسٹ اور انٹرویو کوالیفائی کیا اور متعلقہ DRCSنے میرٹ پر ان کی سفارش کی۔ معزز عدالت نے فیصلہ کی کاپی چیف سیکرٹری بلوچستان اور سرکاری جواب دہندگان کی اطلاع وسختی سے تعمیل کیلئے بھجوانے کا بھی حکم دیا۔اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے بہترین فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ تعلیم کی بہتری کے لیے اچھا فیصلہ ہے جس پر عملدرآمد ضروری ہے۔ بلوچستان تعلیم کے لحاظ سے دیگر صوبوں کے حوالے سے بہت پیچھے ہے اس کی وجوہات سب کے سامنے ہیں اساتذہ کی کمی تو ایک بڑا مسئلہ ہے جسے دور کرنا ضروری ہے تاکہ اندرون بلوچستان کے غریب بچوں کو مفت اور معیاری تعلیم میسر آسکے۔ امید ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کرتے ہوئے جلد عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے گا۔ بلوچستان کی ترقی کے لیے تعلیم انتہائی ضروری ہے اور اس پر توجہ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے اساتذہ کی بھرتیوں کے ساتھ اسکولوں کی تعمیر، بنیادی سہولیات کی فراہمی سمیت تمام مسائل کو بھی حل کیاجائے تاکہ بچوں کا رجحان تعلیم کی جانب بڑھ سکے۔