|

وقتِ اشاعت :   March 24 – 2023

الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات ملتوی کردئیے۔الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے کا باضابطہ حکم نامہ جاری کر دیا جس کے مطابق پنجاب میں الیکشن 8 اکتوبر کو ہوں گے۔الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق آئی جی پنجاب نے امن وامان کی خراب صورت حال سے آگاہ کیا، انہوں نے دہشت گردی کے واقعات کا حوالہ دیا ۔

اور کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن مکمل ہونے میں 5 ماہ لگیں گے، پنجاب میں 3 لاکھ 86 ہزار 623 اہلکاروں کی کمی ہے۔الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ صرف فوج اور رینجرز کی تعیناتی سے ہی یہ کمی پوری ہوسکتی ہے، وزارت داخلہ نے کہاکہ سول، آرمڈفورسزاسٹیٹک ڈیوٹی کیلئے دستیاب نہیں ہوں گی، وزارت داخلہ کے مطابق فوج سرحدوں، اندرونی سکیورٹی، اہم تنصیبات کے تحفظ، غیرملکیوں کی سکیورٹی پرمامورہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق وزارت داخلہ نے کہا کہ سیاسی رہنما دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پرہیں، سیاسی رہنماؤں کو الیکشن مہم میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے۔

 وزارت خزانہ کے مطابق ملک میں معاشی بحران ہے،آئی ایم ایف کی شرائط ہیں، حکومت کے لیے کے پی، پنجاب اسمبلی انتخابات کے لیے فنڈ جاری کرنا مشکل ہوگا، حکومت کے لیے قومی اسمبلی، سندھ، بلوچستان کے انتخابات کیلئے فنڈ جاری کرنا مشکل ہوگا، خراب معاشی صورت حال کے باعث فنڈ فراہمی مشکل ہوگی۔الیکشن کمیشن کے مطابق پنجاب اسمبلی کا الیکشن شیڈول واپس لے لیا اور صدر مملکت کو فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے الیکشن کمیشن پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ انتخابات کا شیڈول واپس لینے کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے۔اس حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے تحت سپریم کورٹ بار نے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی سے ملک میں انتشار اور انار کی پیدا ہوگی۔

الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرتے وقت آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیال نہیں رکھا، الیکشن کمیشن نے فیصلے سے اپنے آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی کی، نگران حکومت 90 دن سے زیادہ کام جاری نہیں رکھ سکتی۔سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مطابق جمہوریت کی بحالی اور وقت پر الیکشن حالات کا تقاضہ ہے، تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ آئین کا تحفظ کریں، تمام آئینی عہدیداروں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے، آئینی ا دارے کی طرف سے آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہ دی جائے۔ملک میں اب دو بڑے ادارے آمنے سامنے آگئے ہیں الیکشن کمیشن نے جو جواز پیش کیے ہیں اس میں حکومت پر تمام تر ذمہ داری ڈال دی ہے ، جن وسائل کی ضرورت ہے وہ حکومتی سطح پر ملنی تھیں اور الیکشن کمیشن نے واضح طورپر اپنے نوٹیفکیشن میں کہا ہے ۔

 ہمیں وسائل فراہم نہیں کئے جارہے جبکہ حکومتی نمائندگان کی جانب سے بتایاجارہا ہے کہ جومسائل درپیش ہیں اس سے الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا گیا ہے ،تمام اداروں نے اپنی رپورٹس الیکشن کمیشن کو پیش کردی ہیں ۔ایک شخص کی ضد پر اسمبلیاں تحلیل کی گئیں اور اب اس کی خواہش پر الیکشن تو نہیں کرائے جاسکتے ،وہ بھی ان حالات میں جب ملک کومعاشی بحران اور دہشت گردی جیسے مشکلات کا سامنا ہے ۔بہرحال یہ حکومتی نمائندگان کا مؤقف ہے دوسری جانب پی ٹی آئی کی جانب سے اسے آئین کی خلاف ورزی قرار دیاجارہا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ نے جو الیکشن کے حوالے سے فیصلہ کیا تھا اب اس پر سپریم کورٹ کی جانب سے کیا جواب آئے گا ۔ اس وقت ملک میں سیاسی ومعاشی مسائل بڑھتے جارہے ہیں مگر اب آئینی بحران بھی سراٹھانے لگا ہے جسے حل کرنا بھی حکومت سمیت تمام آئینی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔