ملک میں موجودہ سیاسی بحران پر حکومت اوراپوزیشن ایک ساتھ بیٹھ سکتی ہیں ،یہ بڑا سوال ہے ۔2014ء سے لے کر اب تک پی ٹی آئی بمقابلہ پی ڈی ایم چل رہا ہے جس کا موجودہ حکومتی اتحادی جماعتوں سے تعلق نہیں کیونکہ چند جماعتیں عمران خان کی حکومت کے ساتھ تھیں اوردیگر ان کے اپنی جماعت کے ارکان بھی اس وقت حکومت اوراپوزیشن بینچ پر ہیں۔ پی ٹی آئی بضد ہے کہ الیکشن جلدہونے چاہئیں خاص کر پنجاب ہدف ہے مگر گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے عمران خان اس فیصلے کے بعد حکومت کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہوں گے ، حالات بتارہے ہیں کہ نہیں۔
بدقسمتی سے اداروں کے درمیان بھی خلیج پیداکی جارہی ہے جبکہ آئینی اداروں پر تنقید بھی جاری ہے ۔ملک میں ایک دگرگوں جیسی کیفیت ہے ایک طرف سیاسی ومعاشی مسائل تو دوسری جانب آئینی بحران سراٹھانے لگا ہے ایسے میں کس طرح ملک مسائل سے نکل سکتا ہے جبکہ سب ایک ہی بات کررہے ہیں کہ ہمیں ملک کے مستقبل کے حوالے سے سوچنا چاہئے مگر ایک دوسرے پر تنقیدی حملے بھی جاری ہیں ،سازگار ماحول بنتادکھائی نہیں دے رہا ہے۔ حکومت پہل کرے گی تو کیا عمران خان ڈائیلاگ کے لیے تیار ہونگے یہ بڑا سوال ہے۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن میری رائے میں بہترین فیصلہ ہے، اگر عمران خان گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں تو آئیں ہم تیار ہیں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ کا کہنا تھا کہ ملک کو سکیورٹی چیلنجز اور شدید معاشی بحران درپیش ہے، قومی اور صوبائی اسمبلی کے اکٹھے انتخابات میں صرف ایک اضافی بیلٹ پیپر درکار ہوتا ہے، کیا یہ بھلے والی بات نہیں کہ انتخابات ایک ساتھ ہوں؟اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ دو اسمبلیاں ایک شخص کی انا کی بھینٹ چڑھ گئیں، ملک کو معاشی طورپر مشکلات کاسامنا ہے،کفایت شعاری کی طرف جانا ہوگا، دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
دو صوبوں میں اگر الگ الیکشن کرایا گیا تو یہ مستقل بحران کی شکل اختیار کرلے گا، ملک کا معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔وفاقی وزیرقانون کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان کہتا ہے کہ عام انتخابات ایک ساتھ ہوں، آئین کے مطابق 90 روز میں انتخابات ایک ساتھ ہونا ضروری ہے، الیکشن کمیشن کا کام شفاف،منصفانہ انتخابات کاانعقاد ہے، 1992 میں خیبرپختونخوا میں 5 ماہ سے زیادہ نگران سیٹ اپ برقرار رہا تھا، 1947سے آج تک کے ملک بھرکے تمام انتخابات ایک ہی دن ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی کے بہت بڑے مسئلے سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی، دونوں اسمبلیوں کی تحلیل اور دہشت گردی کے واقعات کے بعد ملکی حالات سامنے ہیں۔
حالیہ معاشی اور سکیورٹی حالات میں انتخابات پرمباحث کا سلسلہ جاری ہے، ایک طبقے کی رائے میں 2 اسمبلیوں میں انتخابات سے مزید عدم استحکام آئیگا، آئین کے تحت پورے ملک میں قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہونے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی اکائیوں میں آبادی کا تناسب مختلف ہے، 372 کے ایوان میں پنجاب کا تناسب سب سے بڑا ہے، الیکشن کمیشن نے سکیورٹی صورتحال پر انتخابات کا شیڈول ملتوی کیا، اپنی انا کی تسکین کے لیے الیکشن کمیشن کے خلاف فتوے لگائے جا رہے ہیں، پچھلے سال ایک صفحہ لہرا کر اسمبلی تحلیل کرنا آئین کی خلاف ورزی نہیں تھی؟وفاقی وزیرقانون کا کہنا تھا کہ سیاسی قوتوں کو انتخابات کابیک وقت ہونے پر خود سوچنا چاہیے، سیاست کی بنیاد ہی گفت و شنید پر ہے، بدقسمتی سے عمران خان نے پونے 4 سال میں ایک بار بھی اپوزیشن سے مصافحہ نہیں کیا، عمران خان اگر دوبندے بھیج دیں تو ہم بھی دو لوگ بیٹھ جائیں گے۔
اگر عمران خان گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں تو آئیں ہم تیار ہیں، عمران خان نے 4 سال میں جو کچھ کیا، مل بیٹھیں تو سب باتیں ہوں گی، اس سیاسی گرما گرمی میں ہونے والے انتخابات خونی ہوں گے۔بہرحال حکومت کا مؤقف واضح دکھائی دے رہا ہے کہ وہ انتخابات ایک ساتھ کراناچاہتی ہے اور مدت کا تعین بھی خود کرے گی ۔ اب اس پر عمران خان گرینڈڈائیلاگ کے لیے تیار ہوجائینگے مشکل دکھائی دے رہا ہے کیونکہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے اور اب بھی یہی مطالبہ کیاجارہاہے کہ الیکشن جلد کرائے جائیں جو تاریخ دی گئی ہے اسی دن انتخابات ہونے چاہئیں۔
اب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پل کا کردار کون ادا کرے گا؟ جب سیاستدان یہ کہتے ہیں کہ سیاسی معاملات میں کسی کومداخلت نہیں کرنی چاہئے تو راستہ بھی خود نکالنا چاہئے جو بد قسمتی سے فی الوقت دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ آئندہ چند روز ملکی سیاست میں اہم ہونگے مگر ایسا ماحول بھی نہ بنے کہ مزید انتشار کی صورتحال پیداہوجائے جس کاملک متحمل نہیں ہوسکتا۔