|

وقتِ اشاعت :   March 26 – 2023

وزیراعظم میاں محمدشہباز شریف نے صدر مملکت عارف علوی کے خط کا سخت جواب بل آخر دیدیا جس کی توقع کی جارہی تھی کہ پی ٹی آئی کے ایک عہدیدارکی حیثیت سے صدر عارف علوی کو جواب دیاجائے گا مگر جو نکات اٹھائے گئے ہیں وہ آئینی طور پر ہی ہیںمگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی کشیدگی اور عدم استحکام کا حل انہیں اختلافات کے اندر ہی سے نکلے گا جس کے دلدل میں ملک میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک طرف ملک میں معیشت بری صورتحال ہے ملک کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف کی قسط درکار ہے جو مشروط ہوکر رہ گئی ہے۔

حالانکہ تمام ترسخت شرائط ماننے کے باوجود بھی آئی ایم ایف کی جانب سے مزید تقاضے کئے جارہے ہیں دوست ممالک سے رابطے تو کئے گئے ہیں مگر ماسوائے چین کے کسی نے رقم سمیت یقین دہانی نہیں کرائی مگر حکومت کی جانب سے بتایاجارہا ہے کہ جلد ہی دوست ممالک سے اچھی خبریں ملیں گی اس بات کو بھی ایک ماہ گزرنے کو ہے البتہ کوئی مثبت خبر نہیں آئی ہے۔ البتہ ملک میں اس وقت سیاسی ماحول گرم ہے سیاسی عدم استحکام کے ساتھ کشیدہ صورتحال اور مہنگائی نے جو صورتحال پیدا کردی ہے بہت سارے بحرانات کو جنم دیا ہے اس کا حل نکالنا سیاسی جماعتوں کا ہی کام ہے حالات اس طرح کے بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں کہ حکومت واپوزیشن ساتھ بیٹھ کر موجودہ سیاسی مسائل کا حل نکال سکے آئینی بحران جو سراٹھارہا ہے اسے آپس میں بات چیت کے ذریعے حل کریں ہر معاملہ عدلیہ کے پاس جارہا ہے جس کی وجہ سے اداروں پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

اپوزیشن ایک ادارہ کو ہدف بناتی ہے تو دوسری جانب حکومت ایک ادارہ کو نشانہ پر رکھتی ہے جس سے ادارے متنازعہ تو ہورہے ہیں مگر دنیا بھر کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں کہ آئندہ اس کے اثرات کیا پڑینگے پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے عدلیہ میں درخواست دائر کردی ہے اب سماعت ہوگی فیصلہ کیا آئے گا اس کے بعد ایک نیا مسئلہ ضرور کھڑا ہوگا کیونکہ دونوں فریقین اپنے حق میں فیصلہ چاہتے ہیں البتہ یہ بات اپوزیشن بھی جانتی ہے کہ ملک میں الیکشن ایک ساتھ ہونے چاہئے تاکہ وہ متنازعہ نہ ہوں اور یہ مدعہ بھی اپنی جگہ آئینی ہے کہ 90روز کے اندر انتخابات ہونے چاہئے جوپنجاب اور کے پی میں ہونے تھے مگر جن حالات میں اسمبلیاں تحلیل کی گئی وہ غیر مناسب تھا اس میں سیاسی اہداف کا عنصر زیادہ حاوی تھا کسی کی خواہش پر اسمبلیاں تحلیل کرکے پھر الیکشن کرنا یہ بھی سیاسی رویہ نہیں ہے۔

پی ٹی آئی نے پہلے قومی اسمبلی سے استعفیٰ دیدیئے پھر اپنے استعفیٰ واپس لینے کے لیے رجوع بھی کیا یعنی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعفیٰ دو اسمبلیاں تحلیل کردو پھر واپس اپنی مرضی ومنشاء کے مطابق انہی اسمبلیوں میںجانے کی خواہش کا اظہار رکھاجائے جسے ڈمی کہاجائے ۔ پارلیمان جہاں کمزور ہوتی ہے وہاں سیاسی اور آئینی بحران سراٹھاتے ہیں اور یہ سلسلہ پچھلے کئی دہائیوں سے چل رہا ہے جس پر کبھی سنجیدگی سے سوچا نہیں گیا۔ بہرحال وزیراعظم شہبازشریف نے صدر مملکت عارف علوی کو 5 صفحات اور 7 نکات پر مشتمل جوابی خط ارسال کر دیا۔

صدر عارف علوی کی جانب سے 24 مارچ کو لکھے گئے خط کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے لکھا کہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط پاکستان تحریک انصاف کی پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے، آپ کا خط یک طرفہ اور حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے لکھا ہے کہ آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، آپ مسلسل یہی کر رہے ہیں، 3 اپریل 2022ء کو آپ نے قومی اسمبلی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیر آئینی ہدایت پر عمل کیا، قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیر آئینی قرار دیا۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 91 کلاز 5 کے تحت بطور وزیراعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے،کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں، میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی، اپنے خط میں آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا اُس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں۔خط کی مکمل تفصیل تو سامنے آچکا ہے اب اس مسئلے کو حل کرنا کیسے ہے اس کاجواب یقینا کشیدہ ماحول کے اندر مزید جاتے دیکھتے ہوئے ملتا ہے۔

اگر سیاستدان وقت اور حالات کا ادراک رکھتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالیں تو بہترہوگا وگرنہ آنے والے دنوں میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں جس کے اثرات معیشت پر ضرور پڑینگے کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر خوشحالی اور بہتری کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔