|

وقتِ اشاعت :   March 27 – 2023

ملک میں اس وقت جو معاشی بحران اور مہنگائی کی صورتحال ہے اس نے ہر طبقہ کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے۔ دیہاڑی دار طبقہ، کم آمدن والے ملازمین سب ہی پریشان ہیں اور اس وقت حکمرانوں کی جانب سے کوئی واضح معاشی پالیسی دکھائی نہیں دے رہی ہے البتہ تسلیاں دی جارہی ہیں کہ حالات بہت جلد بدلنے والے ہیں ملکی معیشت بہتر ہوجائے گی۔

موجودہ بحرانات کا ذمہ دار سابقہ حکومت ہے مگر موجودہ مسائل کا حل کیا ہے اس کا جواب موجود نہیں ۔ان حالات سے تنگ آکرایک سرکاری ملازم نے اس کا انوکھا حل ڈھونڈ ھ کر وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کو خط لکھا ہے کہ انہیں اس مہنگائی کے دور میں کرپشن کرنے کی اجازت دی جائے۔ داد دینی پڑے گی کہ اب ملک میں ایک ایسا وقت بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ کھل کر رشوت اور کرپشن کرنے کامطالبہ براہ راست ملک کے ایگزیکیٹیو سے کیاجارہا ہے۔ اگرایک اہم ادارے کاملازم جب یہ مطالبہ کرے تو دیگر لوگوں کے پاس کیا آپشن ہونگے۔

بہرحال یہ صورتحال کی سنگینی کو تو واضح کرتا ہے مگر کرپشن کرنے اور رشوت لینے کامطالبہ ایک مہذب معاشرے کے لیے بڑا المیہ اور سوالیہ نشان ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو ان لینڈ ریونیو ملازم نے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر کرپشن کرنے کی اجازت مانگ لی۔ملازم نے خط کے متن میں کہا ہے کہ مہنگائی کے باعث گھریلو اخراجات تنخواہ سے پورے نہیں ہو رہے، گھریلو اخراجات ایک لاکھ 10 ہزار 500 روپے تک اور تنخواہ کم ہے، تنخواہ نہیں بڑھائی توکرپشن کرنے کی اجازت دی جائے۔ملازم نے وزیراعظم کو خط لکھا کہ مہنگائی اوراخراجات بڑھنے کے باعث مستقبل کیلئے کوئی جمع پونجی نہیں، نیب، ایف آئی اے، پی ایم آفس اور دیگر اداروں کے ملازمین کی تنخواہیں زیادہ ہیں۔ملازم کا کہنا تھاکہ کم تنخواہ اور مہنگائی کے باعث گھریلو اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا۔ملازم نے مطالبہ کیا کہ ایف بی آر ان لینڈ ریونیو ملازمین کیلئے ایگزیکٹو الاؤنس فراہم کیا جائے۔

واضح رہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں ہوشربا اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور ایک ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں 1.80 فیصد کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس کے بعد ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 46.65 فیصد ہو گئی۔دوسری جانب ملک میں پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کردیا گیا ہے لوگوں نے پھل کھانا چھوڑ دیا ہے ۔ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی ہمارے یہاں یہ ریت عرصہ دراز سے چل رہی ہے کہ خوب منافع کمایاجائے ہر چیز کی قیمت کو آسمان کی بلندی تک پہنچایاجائے ۔

عام مہنگائی اپنی جگہ پرہے مصنوعی مہنگائی نے تو عوام کے ہوش ہی اڑادیئے ہیں۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ عام مارکیٹوںمیں جس طرح سے مصنوعی مہنگائی کی گئی ہے اس کوکنٹرول کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ، پرائس کنٹرول کمیٹیاں کسی بھی جگہ دکھائی نہیں دے رہیں، یہ آفیسرز کس بات کی تنخواہ اور مراعات وصول کررہے ہیں؟ ان کاکام صرف ان کاغذوں پر دستخط کرنا رہ گیا ہے جہاں سے ان کو بھاری بھرکم رشوت ملتی ہے؟ ملک بھر میں بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں اس پر کوئی ایکشن نہیں لیاجاتا، پانی چوری پر خاموش تمائی بنے رہتے ہیں۔

تجاوزات کی بھرماربھی نظر نہیں آتی شاید یہاں سے کچھ نہ کچھ تو مل رہا ہوگا، جب نہیں ملتا تب آپریشن کیاجاتا ہے سوال اس لیے پیداہوتا ہے کہ یہ تمام وارداتیں ہورہی ہیں اور کوئی پوچھنے والانہیں ۔ سب سے بڑی ذمہ داری صوبائی حکومتوں اور وفاق کی بنتی ہے مگر اس وقت چونکہ سب کو سیاست کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا گیا ہے کہ خان صاحب گرفتار ہوجائینگے، میاں محمد نوازشریف کی وطن واپسی جلد ہوگی، انتخابات کب اور کس وقت ہونگے؟ متعدد سیاسی مسائل اور آئینی بحرانات کی اس جنگ میں عوام پس رہی ہے جن پرکوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔

بہرحال سرکاری ملازم کی دیدہ دلیری کو آفرین ہے کہ اپنے اخراجات خود بتاتے ہوئے مزید کرپشن کرنے کی اجازت مانگ رہا ہے ۔اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہمارے یہاں پرائیویٹ سیکٹر پر کام کرنے والے اور دیہاڑی دار طبقہ دن میں کیاکماتا ہے اور گھر پر کتنا خرچ کرتا ہے موازنہ ضروری ہے ، خود کشی لوگ اسی لیے کرتے ہیںکہ وہ اپنے بچوں کو پَل پَل تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے جو تمام تر خوشیوں سے محروم ہیں۔