پنجاب اور کے پی میں انتخابات کرانے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس کی سماعت جاری ہے۔ سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس نے ایک نیا بھونچال پیدا کردیا ہے ، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ چارججز کا فیصلہ ہی آرڈر آف دی کورٹ ہے۔
یہ آرڈر آف دی کورٹ چیف جسٹس پاکستان نے جاری ہی نہیں کیا، جب فیصلہ ہی نہیں تھا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی، الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟ آج عدالت کے ریکارڈ کی فائل منگوالیں، اس میں آرڈر آف دی کورٹ نہیں ہے۔
آرڈر آف دی کورٹ پر تمام جج سائن کرتے ہیں۔ اب سپریم کورٹ میں جو الیکشن کے متعلق کیس کی سماعت چل رہی ہے اس پر سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا سپریم کورٹ کا الیکشن کرانے کافیصلہ چارتین یا دو تین کاتھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے اسے چار تین کا فیصلہ بتایا ہے۔
بہرحال اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں گزشتہ سماعت کے دوران بھی جسٹس جمال خان مندوخیل اپنے نوٹ پر توجہ دلاتے رہے، ایک موقع پر چیف جسٹس نے کہا جومعاملہ ہمارے چیمبر کا ہے اسے وہاں ہی رہنے دیں۔ اٹارنی جنرل اس نقطہ پر دلائل دینگے۔ اب صورتحال تو بالکل ہی مختلف ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے رولز بنائے جانے تک آرٹیکل 184 تھری ازخود نوٹس کے تمام کیسز ملتوی کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ میں حافظ قرآن کو 20 اضافی نمبر دینے کے از خود نوٹس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے فیصلہ جاری کیا۔خصوصی بینچ میں جسٹس امین الدین اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں اور فیصلہ دو ایک کے تناسب سے جاری کیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رولز بنائے جانے تک آرٹیکل 184 تھری کے تمام کیسز کو ملتوی کردیا جائے۔ فیصلے کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کو خصوصی بینچ بنانے کا اختیار نہیں ہے۔
سپریم کورٹ رولز میں چیف جسٹس کو اسپیشل بینچ بنانے کا اختیارنہیں، اسپیشل بینچ میں مختلف بینچز سے ایک ایک جج کو شامل کیا گیا، عدالتی وقت ختم ہونے کے وقت کیس سماعت کیلئے مقررکیا گیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام اراکین پارلیمنٹ کے انتخاب کے وقت ان کا احتساب کرتے ہیں، اراکین پارلیمنٹ الیکشن میں عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں، قوانین کے تحت بیوروکریسی حکومت کو جوابدہ ہوتی ہے، عدلیہ اس طرح کسی کو بھی جوابدہ نہیں ہے۔
فیصلے میں قرار دیا گیا کہ چیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں کہ بینچ کی تشکیل کے بعد کسی جج کو بینچ سے الگ کریں، ایک جج سپریم جوڈیشل کونسل کوجوابدہ ہوسکتا ہے لیکن جوڈیشری نہیں۔فیصلے کے متن کے مطابق چیف جسٹس اپنی دانش کو آئین کی حکمت کی جگہ نہیں دے سکتے، آئین نے چیف جسٹس کو یک طرفہ اورمرضی کااختیارنہیں دیا، سپریم کورٹ کے تمام ججز کے اجتماعی طورپرتعین کاکام چیف جسٹس انجام نہیں دے سکتے۔بینچ میں جسٹس شاہد وحید نے فیصلے سے اختلاف کیا اور نوٹ میں لکھا کہ جن معاملات پرفیصلہ دیا گیا وہ ہمارے سامنے ہی نہیں تھے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کا ازخود نوٹس کیس بھی زیر سماعت ہے جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔چیف جسٹس کے ازخو دنوٹس اور بینچز بنانے کے حوالے سے بھی سینئر ججز اعتراضات کررہے ہیں اور کھل کر اس کااظہار بھی کیا جارہا ہے۔
اب اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو پہلے الیکشن کرانے کے متعلق فیصلہ دیا گیا تھا وہ صحیح تھا یا پھر جسٹس جمال خان مندوخیل نے چار تین کا بتایا یہ درست ہے؟ اب خود اعلیٰ عدلیہ کے اندر بحث چل رہی ہے سپریم کورٹ میں جاری کیس کی سماعت اب کہاں تک جائے گی اور آئندہ چند روز میں کیا ہوگا، سوالات تو بہت سارے ہیں مگر حل کیانکلے گا اس کا واضح طور پر کوئی نقشہ دکھائی نہیں دے رہا۔