|

وقتِ اشاعت :   March 31 – 2023

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں جامعات کے مالی بحران کے لئے حل کے لئے اقدامات اٹھانے ، خواتین کے لئے ہر سطح پر الگ ڈائر یکٹوریٹ بنانے محکموں میں خواتین کا کوٹہ بڑھا کر 33فیصد کرنے ، خاران احمد وال روڈ اور خاران بسیمہ روڈ کو وفاقی پی ایس ڈی میں شامل کر کے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی قرار داد منظور کرلی گئیں ، سردار یار محمد رند کی جانب سے 11مارچ کو انکے بیٹے پر حملے کی تحریک التواء پیش کی گئی ،پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سال 2018-19کی رپورٹ منظور کرلی گئی ۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو پینل آف چیئر پرسن کے رکن اصغر ترین کی زیرصدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں بلوچستان اسمبلی میں وقفہ سوالات محرکین کی عدم موجودگی کے باعث موخرکردیا گیا ۔

اجلاس میں پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ خان زیرے نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر گاہ کہ صوبے کے گیارہ پبلک سیکٹر یو نیورسٹیز بالخصوص یونیورسٹی آف بلو چستان، بلوچستان یو نیورسٹی آف انفار میشن ٹیکنا لوجی، انجینئر نگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز ، سر دار بہادر خان وویمن یونیورسٹی سمیت دیگر یونیورسٹیز اپنی تاریخ کی بد ترین ما لی و انتظامیہ بحران سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے یونیورسٹیز کے اساتذہ کرا م، طلباء وطالبات اور ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی بنا سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اب تک نہ تو وفا قی حکومت اور نہ ہی صوبائی حکومت نے اس بابت کوئی خاص اقدامات اٹھائے ہیں۔لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کر تا ہے کہ وہ فوری طورپر وفا قی حکومت اور ایچ ایس سی سے رجوع کر ے کہ صوبہ کے گیار پبلک یو نیورسٹیوں کی ما لی و انتظامی بحران کو ختم کر نے کے لئے ذیل جامع اقدامات اٹھانے کو یقینی بنائے۔

و فا قی حکومت یونیورسٹیز کے Recurringبجٹ اور تر قیاتی بجٹ کو دگنا کرے ، ایچ ای سی کے بجٹ میں صوبے کا حصہ این ایف سی ایوارڈ کے مطابق کرے ، صوبائی حکومت کو صوبے کی تمام سر کا ری شعبے کی یو نیورسٹیوں کے لئے ما لی امدادی گر انٹ ان ایڈ کم از کم 10ارب روپے تک کا اضا فہ کر کے ہر سال اس میں 10فیصد اضا فہ کیا جائے ، تمام سر کا ری یونیورسٹیوں کے موجود ہ ما لی بحران کو حل کر نے کے لئے وفا قی حکومت ہر یو نیورسٹی کے لئے الگ الگ 3ارب روپے اور صوبائی حکومت دو دو ارب روپے بیل آوٹ پیکیج کا فوری طورپر اعلان کر ے ، ایچ ای سی اسلام آباد میں آفسران اور ملازمین کی تعیناتی میں صوبہ بلو چستان کا کوٹہ اسی صوبے کے لوگوں کو دیا جائے ، چیئر مین ایچ ای سی اسلا م آباد کی تقرری وفا ق کے یو نٹوں میں رو ٹیشن کی بنیاد پر کی جائے۔

قرار داد کی موضونیت پر بات کرتے ہوئے نصر اللہ زیرے نے کہا کہ ملک میں 170جامعات کے 300سے زائد کیمپس ہیں جن میں 2لاکھ ملازمین ہیں صوبے کی تمام بڑی جامعات مالی بحران کا شکار ہیں جس کی وجہ میرٹ کے بغیر وائس چانسلران کی تعیناتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یو نیسکو کے چارٹر کے تحت جی ڈی پی کا 4فیصد تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے جو کہ نہیں ہورہا صوبے میں جامعات کے لئے صرف اڑھائی ارب روپے رکھ گئے ہیں سندھ میں 18.70ارب ، پنجاب میں 69ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جو کہ انتہائی کم ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو جامعات بند ہو جائیں گی ۔انہوں نے کہا کہ ماڈل یونیوسٹیز ایکٹ بھی عجلت میں منظور کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ بیوٹمز کے ملازمین آج بھی تنخواہوں سے محروم ہیں انکے پیشن انڈومنٹ فنڈ بھی نہیں ہیں جامعہ کے اخراجات 2350ملین سالانہ ہیں جبکہ اسے 1500ملین آمدن ہوتی ہے جامعہ کا خسارہ 850ملین ہے تمام اعلیٰ پوسٹوں پر ایکٹنگ چارج پر لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ گریڈ 21کی افسر کیسے گریڈ 22کے وائس چانسلر کے امیدوار کا انٹرویو لے سکتی ہیں ۔ بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے کہا کہ دنیا بھر کی جامعات آرٹیفیشل اینٹیلیجنس پر جاچکی ہیں ہمارے بچے اور استاتذہ تنخواہوں، بسوں کے ایندھن سے محروم ہیں ۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں تعلیمی اداروں میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جامعات کو بیل آئوٹ پیکج کے ساتھ ساتھ بہتر لیڈر شپ دینے سے انکی حالت بہتر بنائی جاسکتی ۔انہوں نے کہا کہ رخشان یونیورسٹی کے لئے مختص جگہ کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ایک چھو ٹے ادارے کو دے دیا گیا ہے اور اس عمل میں منتخب نمائندے کو اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا ۔اجلاس میں بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء اللہ بلوچ نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کاہ کہ ہر گاہ کہ بلو چستان آمد و رفت کے تمام جدید ذرائع سے محروم ہے ۔

جس کی وجہ سے صوبے کی معاشی اور سما جی تر قی مکمل طورپر جمود کا شکار ہے ۔ رخشان ڈویژن بلو چستان کے ایک تہائی یعنی 1لاکھ کلو میٹر پر مشتمل خطہ ہے جس کے قیام سے لے کر آج تک کوئی بڑامنصوبہ شروع نہیں کیا گیا ۔ خاران ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کو ملانے و الی سڑک خاران احمد وال روڈ اور مکمل رخشان ڈویژن کی شہ ر گ کہلانے والی خاران بسیمہ روڈانتہائی نا گفتہ بہ حالت میں ہے ۔ لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفا قی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ بلو چستان کی معاشی تر قی میں اہمیت کے حامل خاران احمد وال روڈ اور خاران بسیمہ روڈ کو وفا قی تر قیا تی اسکیم میں تر جہی بنیادوں پر شامل کرکے اس پر فی الفور کام شروع کر نے کو یقینی بنائے ۔قرار داد کی موضونیت پر بات کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہا کہ سڑکیں صنعتی ،تعلیمی اور معاشی ترقی کی ضامن ہوتی ہیں ۔

بلوچستا ن کے تمام اضلاع موٹر وے اور اچھی سڑکوں سے محروم ہیں ۔خاران، چاغی، نوشکی صوبے کے معدنی وسائل کے لحاظ سے بھی اہم علاقے ہیں رخشان ڈویژن صوبے کے نصف کے برابر ہے اس پر کبھی بھی توجہ نہیں دی گئی خاران کو جام کمال نے پسماندہ رکھنے کی کوشش کی ۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت حادثات سے نجات دلوانے ، تعلیمی بہتری کے لئے خاران احمدوال اور خاران بسیمہ روڈ کو پی ایس ڈی پی میں شامل کرے ۔قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام کے رکن میر زابد علی ریکی نے کہا کہ جس ضلع میں مواصلاتی نظام نہ ہو وہ ترقی نہیں کرسکتا ہم نے کوشش کی مگر مرکز اور صوبے نے واشک خاران پر توجہ نہیں دی ہے ۔

ریکوڈک کے لئے بھی مذکورہ شاہراہیں اہم ہیں لہذا ان کر ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کیا جائے ۔ایوان نے قرار داد کو منظور کرلیا ۔اجلاس میں بی این پی کی رکن صوبائی اسمبلی شکیلہ نوید قا ضی نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر گاہ صوبہ کہ تمام اضلاع دور دراز علاقوں پر مشتمل ہیں اور اس وقت خواتین کی ایک کثیر تعداد صوبہ کے تمام اضلاع کے مختلف محکموں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں لیکن ان کے لئے اب تک کوئی الگ ڈائریکٹو ریٹ قائم نہیں کیا گیا ہے ۔

جس کی وجہ سے ان کو اپنے کسی بھی چھوٹے مسئلے کو حل کر نے کے لئے کوئٹہ کے چکر لگانے پڑ تے ہیں جس کی وجہ انہیں سخت مشکلات کا سامنا کر نا پڑ تا ہے ۔ لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ ڈیژن سطح پر خواتین کے لئے الگ ڈائریکٹو ریٹ قائم کر نے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے اور اس کی ابتداء با قاعدہ طورپر محکم تعلیم سے کی جائے ۔

اور بتدریج تمام محکموں تک اس کا دائرہ کار وسیع کیا جائے اور ان میں خواتین عملے کی تعینا تی کو یقینی بنایا جائے مزید براں تمام محکموں میں خواتین کا مخصوص کوٹہ5فیصد سے بڑھا کر 33فیصد کیا جائے۔قرار داد کی موضونیت پر بات کرتے ہوئے شکیلہ نوید دہوار نے کاہ کہ بلوچستان میں خواتین افسران کو اہم پوسٹوں پرتعینات نہیں کیاجاتا صوبے میں صنف کی برا بری پرتوجہ دی جائے،قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری ماہ جبین شیران نے کہا کہ خواتین کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔

قرار داد کو ایوان کی مشترکہ قرار داد کے طور پر منظور کیا جائے۔ جمعیت علماء اسلام کے رکن مولوی نور اللہ نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے لئے پارلیمنٹ میں بھی 50فیصد کوٹہ ہونا چاہیے ۔بعدازاں قرار داد کو منظور کرلیا گیا ۔اجلاس میں رکن صوبائی اسمبلی سردار یا ر محمد رند نے تحریک التواء پیش کرنے کی تحریک پیش کی ایوان کی جانب سے اجازت ملنے پر سردار یار محمد رند نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں قواعد و انضباط کار بلو چستان اسمبلی مجر یہ 1974کے قاعدہ نمبر 70کے تحت ذیل تحریک التواء کا نوٹس دیتا ہوں۔تحریک یہ ہے کہ مورخہ 11مارچ 2023کو سنی کے علا قے میں میرے بیٹے میر سردار خان رند کے قافلے پر قاتلانہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں میر سر دار خان رند کے محافظ محمد عمر ولد محمد صدیق رند موقع پر شہید ہوا جبکہ محمد رمضان ولد محمد حیات اور محمد حسن ولد بنگل خان جتوئی شدید زخمی ہو ئے ( ایف آئی آر کاپی منسلک ) اسی طرح ایک سال قبل مورخہ یکم نومبر 2021کو اعوان بر ادری کے تین نو جوانوں کو دن دیہاڑے بالا ناڑی کے علا قے میں بے دردی سے قتل کیا گیا جس کی وجہ سے کچھی کے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا تا ہے ۔

لہٰذا اسمبلی کی کاروائی روک کر اس اہم اور فوری نو عیت کے حامل مسئلے کو زیر بحث لایا جائے ۔تحریک التواء پر بحث کرتے ہوئے سردار یار محمد رند نے کہا کہ 11مارچ کو مجھے سفر پر نکلنا تھا لیکن میری جگہ میرے بیٹے سردار خان رند نے سفر کیا اور مجھے نشانہ بنانے کے لئے لگائے گئے ۔

بم کی زد میں میرے بیٹے کا قافلہ آیا ۔انہوں نے کہا کہ حملہ کا نشانہ میں تھا آئے روز ضلع بولان میں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں بھاگ ناڑی میں تین افراد کے قتل کے خلاف بھی ہم نے اسمبلی کے باہر دھرنا دیا تھا اس وقت اراکین اسمبلی کی یقین دہانی پراحتجاج ختم کیا گیا لیکن آج تک ایک بھی قاتل گرفتار نہیں ہوا الٹا جس شخص نے ایف آئی آر کروائی تھی اسے اغواء کے جھوٹے مقدمے میں خضدار جیل بھیج دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کونسی قوتیں ہیں جو مجھے سزا دینا چاہتی ہیں ،مجھے خوفزدہ اور ڈرایا جارہا ہے ہمارے علاقے میں سازش کے تحت آگ لگائی گئی ہے جرائم پیشہ عناصر پر مشتمل امن فورس بنائی گئی ہے ڈپٹی کمشنر کچھی سے درخواست کی تھی کہ وہ 11مارچ کے واقعہ کی تحقیقات کے لئے جیو فینسنگ کریں مگر آج تک اسکا نتیجہ نہیں نکلا ۔انہوں نے کہا کہ ہم ہمیشہ اپنی دھرتی کے ساتھ وفادار رہے ہیں ۔

اور کبھی مشکوک عمل نہیں کئے ہم نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کی میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے وہ ابتداء ہے رند علی میں میرے سسر کے گھر کے سامنے ایس ایچ او کو نشانہ بنایا گیا یہ ہمیں پیغام دیا جارہا ہے لیکن ہم اپنی روایات سے نہیں ہٹیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے گھروں میں سکون سے نہیں رہنے دیا گیا تو بہت سے لوگ اپنے گھروں میں سکون سے نہیں رہیں گے ہماری ایف آئی آر سیاسی نہیں ہے ہمیں معلوم تھا یہ ہونے جارہا ہے ہم ایسے واقعات سے گھبراتے نہیں ہیں ۔

گزشتہ دور حکومت میں بھی ہمارے 9لوگ شہید ہوئے مگر انکی ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاسی مخالفین کو اس مالی سال کے بجٹ میں بھی 1ارب 80کروڑ روپے دئیے گئے ہیں حال ہی میں پی ایچ ای کے 6کروڑ روپے خرد برد کرنے کے لئے دبائو ڈالا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری ایک کرپٹ شخص ہیں وزیراعلیٰ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ایسا نہ کریں کل کو انکے ساتھ بھی ایساہوسکتا ہے ۔