|

وقتِ اشاعت :   April 2 – 2023

ملک میں عدل وانصاف کے لیے تمام قوانین سب پر یکساں لاگو ہوتے ہیں کسی کو قانون سے بالاتر اس لحاظ سے نہیں کیاجاسکتا کہ وہ بڑی شخصیت یا مقبول لیڈر ہیں اگر آئین اور قانون کے برعکس اقدام کرے تو اس کو سزا اسی طرح ملنی چاہئے جوقانون اور آئین کہتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے یہاں سستاانصاف عام شہری کو دستیاب نہیں اور نہ وہ سہولیات میسر ہیں جو بڑی شخصیات کو ملتے ہیں کیسز میں ریلیف، ضمانتیںشامل ہیں۔ عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں کیسز زیرالتواء ہیں شہری عدالتوں کے چکر کاٹتے تھک جاتے ہیں دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں کیسز ختم ہوجاتے ہیں یا پھر آنے والی نسل اس کیس میں شامل ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے مگر بروقت کیسز کی سماعت اور جلد فیصلے نہ ہونے کی وجہ سے عام شہری بہت بڑی اذیت سے گزرتے ہیں۔

بہرحال اب ملک میں آئین اورقانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی جنگ چھڑ چکی ہے ۔ موجودہ جنگ پنجاب اور کے پی انتخابات کرانے سے شروع ہوچکی ہے اس وقت دو فریق آمنے سامنے ہیں جس میں حکو متی اتحاد اور پی ٹی آئی شامل ہیں۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں زیرسماعت پنجاب اور کے پی انتخابات پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے پیشگی فیصلہ تسلیم کرنے سے بھی انکارکردیا ہے اورمطالبہ کیا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دی جائے چونکہ کیس کی سماعت تین رکنی بنچ کررہی ہے اور ان ججز پر حکومتی جماعت نے عدم اعتماد کااظہار کردیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے یہ بتایاجارہا ہے کہ سیاسی جماعتیں درجہ حرارت کو کم کریں مگر عدلیہ کے اندراختلافات بھی کھل کرسامنے آگئے ہیں درجہ حرارت اندر بھی بڑھ چکا ہے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی جیسے اہم ججز اعتراضات اٹھارہے ہیں ۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ پر جوکچھ بتایا وہ عام لوگوں تک پہنچ چکا ہے اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ انہیں مشورے تک شامل نہیں کیا گیاالبتہ بنچ بن کر ٹوٹتے جارہے ہیں اب تین رکنی بنچ پنجاب اور کے پی انتخابات کیس کی سماعت کررہی ہے یقینا فیصلہ تو وہ دینگے مگر حکومتی اتحاد نے برملا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔

اب تاریخ پر نظر دوڑانی چاہئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے لیکر پانامہ سے اقامہ برآمد کرکے ایک منتخب وزیراعظم کو گھربھیج دیا گیا جس پر کبھی بھی اعلیٰ عدلیہ میں بات نہیں ہوئی مگر جب ججز کا معاملہ آیا تو گزشتہ دنوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطابندیال جذباتی ہوگئے اور آبدیدہ بھی ہوئے اور کہا کہ ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں اگرججز پر بات ہوگی تو میںفرنٹ آکر بات کرونگا اور اسی بات پر بہت زیادہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ایک اہم منصب پر بیٹھے شخص کو جذبات سے کام نہیں لینا ہے بلکہ اسے آئین اور قانون کے مطابق اپنا فرض نبھانا ہے جب جذبات حاوی ہوجائیں تو اسے بنچ سے الگ ہونا چاہئے بہرحال یہ جج صاحبان پر ہی منحصر ہیں اور وہ خود بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں

مگر یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ تاریخ کا حصہ وہ تمام فیصلے بن جاتے ہیں جو ان کے قلم کے ذریعے کئے جاتے ہیں اور ایک بار پھر تاریخ بننے جارہی ہے اس کیس نے بہت اہمیت اختیار کرلی ہے چونکہ حکومت نے پہلے عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے اب فیصلہ جو بھی آئے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کم نہیں ہوگا مگر کیا یہ مناسب نہیں کہ عدلیہ کے اندر موجود درجہ حرارت ہائی ہورہا ہے اسے کم کیاجائے ججز کیوں اعتراضات اٹھارہے ہیں اختلافی ، اضافی نوٹ لکھ کر بتارہے ہیں۔

ایک فرد پر سب کچھ نہیں چھوڑاجاسکتا ادارہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ کیا اپنے ججز برادری کی باتوں پر توجہ دی جائے گی جوآوازیں عدالت کے اندر سے اٹھ رہی ہیں اس پارہ کو ہائی ہونے کی بجائے کم کرنے کی کوشش کی جائے گی؟ یہ اب ادارہ پر ہی چھوڑاجاتا ہے البتہ سیاسی درجہ حرارت سے زیادہ اہمیت اداروں کا وقار ہوتا ہے، پارلیمان سمیت تمام آئینی ادارے قانون سے بالاتر نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری ہی آئین کے مطابق اپنا کام کرنا ہے جس پر کوئی سوال نہ اٹھے۔ البتہ آج کا دن اہم ہے کیس موڑ لے گا اورریمارکس کیا آئینگے فیصلہ کیساہوگا یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ یہ نہ صرف تاریخ رقم کرے گا بلکہ اپنے اثرات بھی چھوڑے گا۔