|

وقتِ اشاعت :   April 3 – 2023

پنجاب اور کے پی انتخابات کیس اہم پوائنٹ پر پہنچ گیا ہے اور اس وقت ملک میں یہ معاملہ توجہ کامرکز بناہوا ہے یقینا فیصلے سے سیاسی درجہ حرارت بڑھنے کا قوی اندیشہ ہے کیونکہ حکومت نے فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا کی ہے جبکہ پی ٹی آئی کی تمام ترامیدیں اور توقعات اس وقت سپریم کورٹ سے جڑی ہوئی ہیں ۔پی ٹی آئی رہنماء نے یہ دعویٰ کیا تھاکہ پیر کے روز ایک اور وزیراعظم رخصت ہوجائینگے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا ۔

اب مسئلہ سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی تک نہیں رہی بلکہ چیف جسٹس آف پاکستان بمقابلہ حکومت چل رہا ہے چونکہ حکومتی اتحاد نے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو پیشگی تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور عدم اعتماد کااظہار کرتے ہوئے اپنے تحفظات بتادئیے ہیں جسے بائیکاٹ سے تشبیہہ دی جارہی ہے جبکہ حکومت اور ان کے وکلاء نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ بائیکاٹ کرتے تو ہم عدالت میںپیش نہ ہوتے ،فل کورٹ بینچ بنانے کاہمارا مطالبہ ہے۔

گزشتہ روز تمام تر بحث اسی نکتے کے گرد گھومتی رہی، دلائل دیئے گئے، ریمارکس دیئے گئے دلچسپ باتیں ہوتی رہیں ۔عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ فیصلہ سنانے کے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائیگا۔کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطابندیال نے کہا کہ ہم نے کہا تھا فل کورٹ کو بعد میں دیکھ لیں گے استدعا مسترد نہیں کی، سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے میں انتظامی ہدایات دی گئی تھیں، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا تھا، 31 مارچ کے سرکلر میں لکھاہے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی تھی، مقدمات سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پرسرکلر آیا ہے، فیصلے میں لکھا ہے مناسب ہوگا 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکی جائے۔

عوام کا مفاد مقدمات پر فیصلے ہونے میں ہے نہ کہ سماعت مؤخر کرنے میں، فیصلے میں تیسری کیٹیگری بنیادی حقوق کی ہے، بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہرمقدمے میں ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں ہورہا، سارا بوجھ وفاقی حکومت پرہے، وفاقی حکومت انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرائے تو کچھ سوچا جاسکتا ہے، آرٹیکل218 الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن آئین سے تجاوز کی اجازت تو نہیں دیتا؟ کیا صدر مملکت وزیراعظم کی مشاورت کے بغیر تاریخ دے سکتے تھے؟ اٹارنی جنرل سے گلہ ہے 4/3، 3/2 کے معاملات میں پڑ کر انہوں نے اتنا اہم سوال نہیں اٹھایا، ہم سپریم کورٹ میں انصاف کے لیے بیٹھے ہیں۔

عدالت کے بائیکاٹ کے باعث اتحادی جماعتوں کے وکلاء کو نہیں سن سکتے۔دوسری جانب قومی اسمبلی میں اجلاس کے دوران وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ موجودہ بینچ پر عدم اعتماد کی بات کی گئی تھی، بائیکاٹ کی نہیں، وزیر قانون نے جو باتیں ایوان میں کیں، 100فیصد حقائق پر مبنی ہیں، چیف جسٹس کو چاہیے اس اہم قومی معاملے پر فل کورٹ بنادیں، وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اس بینچ کا فیصلہ کرنا انصاف کے تقاضوں کے 100فیصد منافی ہے،کاش چیف جسٹس فل کورٹ تشکیل دے دیتے، فل کورٹ کا فیصلہ پوری قوم کو قبول ہوگا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے کیس کی سماعت کے دوران جو دلائل دیئے گئے اور اس دوران جو سیاسی بیان بازی ہوتی رہی اس سے ہوائوں کی رخ کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ حالات کس طرف جارہے ہیں۔ اس وقت صورتحال کچھ بہترنہیں لگ رہی اگر معاملات احسن طریقے سے حل ہونے کی طرف بڑھیں گے تب جاکر امید کی جاسکتی ہے کہ سیاسی استحکام پیدا ہوجائے گا۔