|

وقتِ اشاعت :   April 7 – 2023

سپریم کورٹ کے پنجاب میں انتخابات کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کیمپ میں بھرپور جشن اور خوشی کا ماحول بن چکا ہے، اب تو پی ٹی آئی کی جانب سے پیشگی یہ بھی بتایاجارہا ہے کہ اگلا وزیراعظم عمران خان ہونگے ،پنجاب کا معرکہ باآسانی جیت جائینگے اور یہ بات پی ٹی آئی چیئرمین عوامی اجتماعات، پریس کانفرنسز اور انٹرویوز کے ذریعے بھی بتارہے ہیں۔

 ان کی جیت یقینی ہے، وفاقی حکومت ان کی جیت سے خوفزدہ ہوکر انہیں الیکشن سے باہر کرنا چاہتی ہے ۔بہرحال اب تک جو بھی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے اس سے تو پی ٹی آئی کا جشن منانا بنتا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے لیے سیاسی حوالے سے بہت سارے چیلنجز پیدا ہورہے ہیں اور ایک واضح پالیسی نظر نہیں آرہی ہے کہ مسلم لیگ ن موجودہ آئینی اور قانونی جنگ کو کس طرح سے لڑکر اپنی پوزیشن مضبوط کرے گی ۔الیکشن کمیشن نے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق الیکشن شیڈول بھی جاری کردیا، کسی قسم کا کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا کیونکہ یہ باتیں بھی سامنے آرہی تھیں کہ بحیثیت ایک آئینی ادارہ الیکشن کمیشن شاید اعتراض کرتی اور فیصلے کو نہ مانتی البتہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور جو حکومتی ردعمل سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد فوری آنا تھا وہ واضح تھا کہ فیصلہ کو تسلیم نہیں کیاجائے گا اور اسمبلی میں قرارداد لائے جائے گی مگر اس سے بڑھ کر اب آگے کیا کرنا ہے ۔

فی الحال مسلم لیگ ن کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آرہا ہے ،وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بات ضروری کہہ دی ہے کہ ایمرجنسی کا آپشن بھی موجود ہے ۔کیا اس سے حالات بہتر ہونگے بالکل بھی نہیں بلکہ مزید شدت پیداہوجائے گی۔ اب یہ آئینی اور قانونی جنگ ہے جسے اسی طرح لڑنا ہے اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ مانا گیا تو کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہوگی جس کے بعد وزیراعظم اور کابینہ بھی فارغ ہوسکتی ہے ۔کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو بیانیہ کے طور پر مسلم لیگ ن لیکر پنجاب کی الیکشن مہم چلائے گی ۔ بہرحال پنجاب کے انتخابات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں چونکہ پنجاب سے الیکشن جیتنے والی جماعت کے لیے وفاق میں حکومت بنانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی اور ایک بہت بڑا صوبہ اس کے پاس ہوگا ،دیگر صوبوں میں جیتنے والی جماعتوں سے اتحاد کرکے باآسانی مرکز میں حکومت بنائے گی ۔ اب تک موجودہ حکومت کی جانب سے جو ردعمل ہے وہ سامنے ہے۔

گزشتہ روز قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرنے سے متعلق قرارداد منظور کرلی گئی۔قومی اسمبلی میں تین رکنی بینچ کے فیصلے کو مسترد کرنے کے لیے قرارداد رکن اسمبلی خالد مگسی نے پیش کی۔ قرارداد کے مطابق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔ پارلیمنٹ نے قرارداد منظور کرلی۔قرارداد کے مطابق ایوان ایک ہی وقت میں عام انتخابات کو مسائل کا حل سمجھتی ہے۔ عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ 63 اے کی تشریح سے متعلق فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ ایوان مقدمات کو فل کورٹ میٹنگ کے فیصلوں تک سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کے 3 رکنی بینچ کے فیصلے کی تائید کرتا ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ ایوان سیاسی معاملات میں بے جا عدالتی مداخلت پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ ایوان عدالتی فیصلے کو عجلت میں متنازعہ بینچ کے روبرو مقرر کرنے اور چند منٹوں میں فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتا ہے۔ ایگزیکٹو سرکلر کے ذریعے عملدرآمد روکنے کے اقدام کو گہری تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ ایوان وزیراعظم اور کابینہ کو پابند کرتا ہے کہ اس فیصلے پر عمل نہ کیا جائے۔ فیصلے سے اقلیت کو اکثریت پر مسلط کیا گیا۔ اقلیتی فیصلہ سیاسی عدم استحکام پیدا کررہا ہے اور وفاقی اکائیوں میں تقسیم کی راہ ہموار کردی گئی۔حکومتی اتحاد کی جانب سے قرارداد منظور تو کرلی گئی ہے اب مستقبل کے حوالے سے کیا فارمولہ اختیار کیا جائے گا جس سے حکومت کی بھی بچت ہو جس پر فی الحال سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ عدالت کے اندر بھی تقسیم واضح طور پر موجود ہے جس تیزی کے ساتھ حالات بدل رہے ہیں اس سے یہ نہیں لگتا کہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوکر پنجاب میں الیکشن کی طرف جائے گا۔ سیاسی ، آئینی جنگ جاری رہے گی مگر اس کی شدت کیسی ہوگی یہ وقت بتائے گی۔