ملک میں سیاسی کشیدگی برقرار ہے تو دوسری جانب اداروں پر بھی شدید تنقید کی جارہی ہے، پی ٹی آئی کی جانب سے مسلسل عسکری قیادت کو ہدف بنایا گیا ہے جبکہ موجودہ حکومت نے پنجاب انتخابات فیصلے کے بعد عدلیہ کو نشانے پر لے لیا ہے ۔اداروں کے درمیان ٹکراؤ نے ایک گھمبیر صورتحال پیدا کردی ہے الیکشن کمیشن پر بہت زیادہ تنقید پی ٹی آئی کی جانب سے کیاجارہا ہے ۔ اب الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق جاری کردیاہے جس میں عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف سیاسی جماعتوں کوبیان بازی نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔
موجودہ حکومت کا اس وقت پورا زور سپریم کورٹ کے چند ججز پر ہے اوران کے فیصلوں پر شدید تنقید کررہی ہے ،برملا اس بات کااظہار پارلیمنٹ اور عوامی اجتماعات میں بھی کیا جارہاہے یعنی کوئی ایسا فورم نہیں جہاں حکومتی نمائندگان حالیہ فیصلے پر ججز پر تنقید کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ اب الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ضابطہ اخلا ق کے بعد خاص کر ن لیگ کیا راستہ اپنا ئے گی یہ دلچسپ امر ہوگا۔ بہرحال گزشتہ روز الیکشن کمیشن کی جانب سے ضابطہ اخلاق جاری کیا گیا جس کے مطابق سیاسی جماعتیں عدلیہ اور افواج پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کریں گی۔
الیکشن کمیشن کی کسی بھی شکل میں تضحیک سے اجتناب کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ضابطہ اخلاق سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد جاری کیا گیا ہے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ضابطہ اخلاق میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پولنگ ڈے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کیا جائے گا، کسی بھی امیدوار کو رشوت سے دستبردار کروانے سے گریز کیا جائے گا، امیدوار انتخابی اخراجات کیلئے مخصوص اکاؤنٹ کھلوانے کا مجاز ہوگا۔
ضابطہ اخلاق کے تحت عام نشستوں کیلئے خواتین کو 5 فیصد نمائندگی دی جائے گی، جلسوں و جلوسوں میں اسلحے کی نمائش پر پابندی ہوگی، صدر اور وزیراعظم سمیت وزراء حلقے میں سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے، الیکشن کمیشن کے منظور کردہ سائز کے بینرز، پوسٹرز اور پینا فلکس استعمال کئے جائیں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ کوئی بھی مخالف سیاسی جماعت کے بینرز نہیں اتارے گا، جلسے سے قبل انتظامیہ سے اجازت لازمی لینا ہوگی، انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد ترقیاتی منصوبوں کے اعلان پر پابندی ہوگی۔سیاسی جماعتوں کے لیے جاری کردہ ضابطہ اخلاق کے تحت پولنگ ڈے پر پولنگ اسٹیشن کے 400 میٹر کے اندر انتخابی مہم نہیں چلائی جا سکے گی، پولنگ اسٹیشن کے اندر سیاسی جھنڈے یا بینرز لے جانے پر بھی پابندی ہو گی۔
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ متن سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ الیکشن کمیشن پنجاب میں انتخابات کے لیے مکمل تیار ہے مگر حکومت کی جانب سے واضح طور پر بتایاجارہا ہے کہ الیکشن نہیں ہونگے، وسائل اور مسائل دونوں کو پیش کیا گیا ہے اور حکومت اس بات پر ڈٹ گئی ہے کہ عام انتخابات ایک ساتھ ہونگے جس کی وجوہات وفاقی حکومت نے بتائے ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہے مگر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے واضح احکامات الیکشن کمیشن کو بھی دی گئیںہیں کہ اگر کہیںسے معاونت نہ ملے تو عدلیہ سے رجوع کیاجائے۔ اب صورتحال مزید دلچسپ موڑ اختیار کرے گی کیونکہ حکومت نے جو مؤقف اپنایاہے وہ واضح ہے البتہ نتائج کیا برآمد ہونگے یہ فیصلہ کن مرحلہ ہوگا۔