ملک میں سیاسی اور آئینی جنگ نے اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ ایک طرف پارلیمنٹ تو دوسری جانب اعلیٰ عدلیہ ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں انتخابات کرانے کی کے احکامات کے بعد پارلیمنٹ ڈٹ گئی ہے اور واضح طور پر بتادیا ہے کہ الیکشن نہیں کرائے جاسکتے جس میں اقلیتی فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی فنڈزسمیت دیگر معاملات پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کم وسائل میں انتخابات نہیں کرائے جاسکتے جبکہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تیاریاں شروع کردی ہیں مگر اب یہ جنگ پارلیمان اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان چل رہی ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے اندر بھی سینئر ججز کے درمیان اختلاف رائے فیصلوں کے حوالے سے موجود ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے مشاورت شروع کرلی ہے اور سینئر ججز کو بینچ میں شامل کردیا ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے کیسز میں ہونے والے فیصلوں میں سینئر ججز کے جو اعتراضات موجود تھے ان کے تحفظات کو ختم کیاجائے جس پر انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ اور بینچز کے متعلق بتایا ہے چونکہ ہم آہنگی اس وقت پیداہوگی جب عدالتی فیصلوں پر تمام سینئر ججز کا اعتمادہویہ اب فیصلہ کن مرحلہ آگیا ہے کہ حالات کس کروٹ بدلے گا۔ بہرحال گزشتہ روز وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، وزیراعظم شہباز شریف نے ویڈیو لنک پر وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی ۔ وفاقی کابینہ اجلاس میں حکومتی قانونی ٹیم بھی شریک ہوئی، اجلاس میں اہم نوعیت کے امور پر غور کیا گیا۔
وفاقی کابینہ نے ملکی سیاسی و معاشی صورتحال کا جائزہ لیا اور صدر مملکت کے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل واپس بھجوائے جانے پربھی غور کیا ۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پنجاب الیکشن کے لیے فنڈز کی منظوری نہیں دی جا سکی، وفاقی کابینہ نے پنجاب انتخابات فنڈز کا معاملہ قومی اسمبلی بھجوانے کی منظوری دیدی، پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے فنڈز کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔سپریم کورٹ نے وزارت خزانہ کو 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو دینے کا حکم دیا تھا اور الیکشن کمیشن کو ہدایت کی تھی کہ 11 اپریل تک رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی نے چند روز قبل عدالتی اصلاحات کا بل منظور کر کے توثیق کے لیے صدر پاکستان کو بھیجا تھا تاہم صدر عارف علوی نے بل نظر ثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا ہے۔صدر مملکت کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے، بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے، میرے خیال میں اس بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنے اور دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس کرنا مناسب ہے۔صدر مملکت کی جانب سے بل واپس بھیجنے پر وفاقی حکومتی نمائندگان نے ردعمل دیتے ہوئے کہنا ہے کہ دوبارہ بل کو اکثریت کے ساتھ منظور کرکے بھیج دیا جائے گا۔
اگر دوبارہ اسے بھیجا جائے پھر منظور کیاجائے جس کے بعد وہ ایکٹ کا حصہ بن جائے گا۔ دوسری جانب چیف جسٹس نے ججز میں موجود اختلافات ختم کرنے کے لیے مشاورت شروع کردی ہے اور سینئر ججز کو بینچز میں شامل کرلیا ہے۔ اب پارلیمان اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان موجود کشیدگی کم کیسے ہوگی یہ بہت بڑا سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ اس وقت ملک میں آئینی اور سیاسی بحران موجود ہے جس کے حل کے بغیر استحکام نہیں آسکتا ہے جبکہ ججز کے اندر تقسیم بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور وہ بھی ان حالات میں پیداہورہے ہیں کہ ملک معاشی حوالے سے بہت ہی گھمبیر صورتحال کا سامنا کررہی ہے اگر ہم آہنگی پیداہوجاتی ہے کشیدگی کم ہوجاتی ہے تو یہ ملک کے وسیع ترمفاد میں ہوگا ورنہ انتشار مزید بحرانات پیدا کرے گی۔