|

وقتِ اشاعت :   April 15 – 2023

موجودہ حکومت نے ایک بار پھر یہ نوید سنادی کہ جلد آئی ایم ایف سے جان چھڑائی جائے گی ملکی معیشت کو بہتر کیاجائے گا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ملکی معیشت قرضوں پر چل رہی ہے کبھی اس میں کمی آئی تو کبھی تیزی مگر قرضوں کے بغیر معیشت کا پہیہ نہیں چلایاگیا، کسی نہ کسی موڑ پر آکر دوبارہ آئی ایم ایف اوردوست ممالک سے قرضے لیے گئے۔

اس کی بنیادی وجہ خودانحصاری کا نہ ہوناہے حالانکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ساتھ ہی یہاں معدنیات، ساحل سب کچھ موجود ہے ،گیس کے ذخائر بھی ہیں، کوئلہ بھی وافر مقدار میں موجودہے تمام تروسائل کے باوجود بھی ملکی پیداواری صلاحیت، صنعت کو وسعت، عالمی منڈی تک رسائی کرکے معیشت کو نہیں چلایا گیا۔

جس کی وجہ سے آج تک لولی لنگڑی معیشت کے سہارے ملک کو چلایاجارہا ہے۔ جس دن حکمرانوں نے یہ طے کرلیا کہ انہوں نے معیشت کو بہتر کرکے آگے بڑھنا ہے اور اپنے وسائل کے ذریعے پاؤں پرکھڑاہونا ہے تو یقینا اس کے بعد آئی ایم ایف سے رجوع نہیں کرنا پڑے گالیکن اس میں بڑی رکاوٹ شاہی اخراجات اور کرپشن ہے جس کاترقی یافتہ ممالک میں تصورتک موجود نہیں۔ ہمارے یہاں حکمرانوں اور عام لوگوں کی زندگی جینے کے انداز میں واضح فرق موجود ہے۔ حکمران عوامی ٹیکس سے اپنی تمام ترضروریات سمیت پروٹوکول پوری کرتے ہیں اور عوام پر قرضوں کے ذریعے ٹیکسوں کابوجھ لادھ دیتے ہیں اورسونے پہ سہاگا یہ کہ مخصوص طبقہ تو ٹیکس دیتا بھی نہیں ہے۔

اگر ان رویوں میں تبدیلی لائی گئی تو خود ملک کے اندر بہت بڑی معاشی سمیت انتظامی تبدیلی بھی آئے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں لہٰذا اب آئی ایم ایف کے پاس معاہدہ نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔لاہور میں شاہدرہ فلائی اوور منصوبے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا آئی ایم ایف کا ایک ٹوٹا پھوٹا معاہدہ حکومت کو جھولی میں ملا تھا جس کے لیے آج تک لکیریں کھنچوائی جا رہی ہیں، ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں اس لیے آئی ایم ایف کی شرائط ماننی پڑ رہی ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا اس دن کے لیے کہتاہوں زندگی میں ہم آئی ایم ایف سے جان چھڑا لیں، ایک دن آئی ایم ایف کی یہ بیڑیاں کٹ جائیں تو وہ پاکستان کی خوشی کا سب سے بڑا دن ہوگا اور پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گا۔ان کا کہنا تھا دن رات کوشش کر رہے ہیں آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے، آئی ایم ایف کی شرائط میں آخری شرط دوست ممالک سے چند ارب ڈالر لانا تھی، چین نے دو ماہ پہلے اندازہ لگایا کہ پاکستان کو مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے، چین نے ہمارا دو ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ دوست ملکوں سے قرض کی شرط پوری کرنے کے لیے وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کے ساتھ آرمی چیف نے بھی اہم کردار ادا کیا، آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں، اب آئی ایم ایف کے پاس معاہدہ نہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا آج کے حالات میں سادگی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہونا چاہیے، مفت آٹا اسکیم میری زندگی کا سب سے پر خطر منصوبہ تھا، مفت آٹا اسکیم کا میں نے کبھی سوچا نہ تھا، میں چاہتا تھا کہ مفت آٹا دینے کے بجائے کم قیمت پر آٹا دیا جائے، مفت آٹا دینے کی تجویز نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی تھی، اس منصوبے سے تقریباً 10 کروڑ لوگوں تک فری آٹے کی ترسیل ہوئی ہے، پنجاب میں ایک ماہ کے دوران فری آٹا دینے پر65 ارب روپے لگے۔ان کا کہنا تھا نواز شریف اور مخلوط حکومت کو احساس ہے مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے، مہنگائی ہے اور عام آدمی تنگ ہے اس لیے فری آٹادینے کا انتظام کیا۔

ان کا کہنا تھا 2018 سے پہلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہمارے منصوبوں پر پابندیاں لگائیں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے پابندیاں اس لیے لگائیں کہ کہیں ن لیگ نہ جیت جائے، اورنج لائن کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر 11 ماہ کیس لگا رہا، ثاقب نثار نے اس کی کارروائی سنی اور آٹھ ماہ تک اس کا فیصلہ نہ دیا کیوں؟وزیراعظم نے الزام عائد کیا کہ ثاقب نثار نے اس لیے فیصلہ نہ دیا کہ منصوبہ مکمل ہوا تو ن لیگ کے وارے نیارے ہو جائیں گے، ثاقب نثار نے اورنج لائن ٹرین منصوبے پر اپنے دل کی بھڑاس نکالی، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے بھائی کو پی کے ایل آئی میں لگانا چاہتے تھے۔ بہرحال حکمران اب شکووں کی بجائے گورننس کی طرف توجہ دیں اور وہ تمام تر اقدامات اٹھائیں جو ملکی معیشت کے لیے بہتر ہوں اور اس کا براہ راست فائدہ قومی خزانے سمیت عوام کو مل سکے۔ عوام کو خودمختاراور خودکفیل بنانے کے لیے بہترین منصوبے تشکیل دیئے جائیں تاکہ وہ اپنے آمدن کے ذریعے بہترین روزگار کرسکیں ،کسی کے محتاج نہ ہوں۔