|

وقتِ اشاعت :   April 18 – 2023

تخت پنجاب کامسئلہ کس طرح سے حل کیاجائے گا؟ ایک طرف مشن سراج الحق جاری ہے تو دوسری جانب پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ٹکراؤ بڑھتاجارہا ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان عمرعطابندیال کی تین رکنی بنچ کا فیصلہ واضح ہے کہ پنجاب میں انتخاب مقررہ تاریخ پرہی کئے جائیں۔

حکومتی اکثریت جو اس وقت پارلیمنٹ میں موجود ہے وہ کسی صورت پنجاب میں انتخابات نہیں کرانا چاہتی اور مؤقف اسی فیصلے پر ہے جس کی پہلے سماعت ہوئی تھی اور ججز نے اختلافی نوٹ لکھاتھا جنہیں فیصلہ کا حصہ نہیں بنایاگیا جس پر اعتراضات اٹھائے گئے اور ججز نے خود بھی کہا ان نوٹس کوفیصلے کا حصہ بنایاجائے جبکہ بنچ سے الگ ہونے پر بھی بات کی گئی۔ اگر اس وقت دیکھاجائے تو وکلاء کے اندر بھی اختلافات واضح طور پر سامنے آرہے ہیں بعض وکلاء چیف جسٹس کی حمایت میں سامنے آرہے ہیں اور بعض وکلاء فیصلوں پر اعتراض سمیت پارلیمنٹ کی حمایت کررہے ہیں۔

پاکستان بارکونسل نے پارلیمنٹ کے قانون پر عدالتی حکم امتناع کے خلاف آج ملک بھر میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کردیا ہے۔پاکستان بار کونسل کے زیر اہتمام آل پاکستان وکلاء کانفرنس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان بار کے وائس چیئرمین ہارون الرشید کا کہنا تھا پارلیمنٹ کے قانون کے تحفظ کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔

ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے2 ججز کے سروس معاملے میں ازخود نوٹس لیا، چیف جسٹس نے90 دن میں انتخابات کا حکم دیا، اصل ازخود نوٹس غیرضروری طور پر اسمبلیاں تحلیل کرنے پر ہونا چاہیے تھا،وائس چیئرمین پاکستان بار کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے ایکٹ کی بحالی تک وکلا کا احتجاج جاری رہیگا، ہمارا مقصد یہ ہے کہ تمام ادارے اپنے حدود میں رہتے ہوئے کردار ادا کریں، پارلیمنٹ نے ازخود نوٹس کے اختیار پر سینئر ججز کی 3 رکنی کمیٹی بنائی، آل پاکستان لائرز نمائندگان نے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل پر حکم امتناع پر اعتراض اٹھایا، پارلیمنٹ کے ایکٹ پر حکم امتناع واپس نہ لیا تو ملک بھر میں کانفرنسز کریں گے اور تحریک چلائیں گے۔دوسری جانب پاکستان بار کونسل کے چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک جماعت کے ترجمان دن رات وکلا ء تحریک کی بات کر رہے ہیں۔

یہ وہی صاحب ہیں جو اپنے خاندان سمیت مشرف کے ساتھ کھڑے تھے۔حسن رضا پاشا کا کہنا تھا جو شخص کسی ضلعی بار کا صدر نہیں بنا وہ وکلاء تحریک کیسے چلائے گا؟ سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ میں 6 ججز وہ تھے جو سینیارٹی کے اصول کے خلاف تعینات ہوئے۔یہ اب عدلیہ کے اندر کی جنگ ہے جو کھل کر سامنے آرہی ہے پہلے ججز کے درمیان اختلافات سامنے آئے اب وکلاء برادری بھی میدان میں نظر آرہی ہے یقینا یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے کہ اداروں کے اندر بھی جنگ کا ماحول پیدا ہو ۔ بہرحال دوسری جانب قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے حکم پر اسٹیٹ بینک کو الیکشن کیلئے فنڈز جاری نہ کرنے کی قائمہ کمیٹی کی سفارش منظور کرلی۔قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں قائمہ کمیٹی خزانہ کی رپورٹ پیش کی گئی۔

رپورٹ چیئرمین قائمہ کمیٹی خزانہ قیصر احمد شیخ نے پیش کی۔ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھاکہ ازخود نوٹس سے شروع ہونے والے مقدمے میں دو جج الگ ہو گئے، چار ججز نے پٹیشن مسترد کر دی، کسی ایک شخص کو خوش کرنے کیلئے الیکشن کروانے کا فیصلہ دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس ایوان نے پورے ملک میں ایک ہی روز الیکشن کروانے کی قرارداد منظور کی، سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک سے کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقم نکالنے کا حکم دیا تھا، قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے معاملہ پر غور کیا، وفاقی کابینہ اور قائمہ کمیٹی نے معاملہ ایوان کو بھیجا۔واضح رہے کہ قائمہ کمیٹی خزانہ نے خصوصی اجلاس میں سپریم کورٹ کے حکم پر اسٹیٹ بینک کو 21 ارب روپے جاری نہ کرنے کی منظوری دی تھی۔

گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اسٹیٹ بینک کو پنجاب میں انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔الیکشن کمیشن کو پیسے جاری کرنے کی تاریخ پیر کے روز تھی ۔اب سیاسی جماعتوں کی جنگ اداروں تک آن پہنچی ہے ۔ ملک میں اس وقت سیاسی کشیدگی تو موجود ہے مگر آئینی مسئلہ بھی سراٹھارہا ہے مشن سراج الحق کی کامیابی بھی فی الحال موجودہ حالات کے پیش نظر ممکن ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ۔ایک بیٹھک ضرور لگ سکتی ہے مگر اس کا بارآورہونا مشکل ہے۔ اب آئینی اداروں کے درمیان جاری کشیدگی مزید بڑھتی جارہی ہے اس کے نتائج کیا نکلیں گے، اس بابت فی الحال قیاس ہی کیا جاسکتا ہے۔