وفاقی حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان آئینی وقانونی جنگ شدت اختیار کرتی جارہی ہے، حکومت نے چیف جسٹس عمرعطا بندیا ل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کی جانب سے پنجاب الیکشن کے دیئے گئے فیصلے کی تاریخ کو تسلیم کرنے سے مکمل انکار کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے ساتھ تاریخ طے کرنے کی بات چیت کو بھی مسترد کردیا ہے۔
حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین کی جانب سے ردعمل تو واضح طورپر سامنے آیا ہے اب وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے بھی اتحادی جماعتوں کے اجلاس سے خطاب کے دوران سپریم کورٹ کو پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ ثالثی اور پنچایت سپریم کورٹ کا کام نہیں، سپریم کورٹ کا کام قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔قومی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے چیلنجز کو ڈیل کیا ہے، صورتحال حکومت کے لیے ابھی بھی چیلنجنگ ہے۔
حکومت نے تین رکنی بینچ کے فیصلے کو قبول نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تین چار کا ہے، سپریم کورٹ نے الیکشن کے فنڈز سے متعلق جواب مانگا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ الیکشن کے لیے اکتوبر یا نومبر کی تاریخ بنتی ہے، اتحادی حکومت نے آخری کوشش کی کہ سب ایک الیکشن پر متفق ہوجائیں۔وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے امریکہ پر سازش کا الزام لگا کر ڈھٹائی سے یوٹرن لیا، پاکستان سے باہر پی ٹی آئی کے چند ایجنٹس نے گھناؤنا کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا ہمیں گفتگو کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے، گفتگو کا فارمیٹ کیا ہوگا؟ یہ بیٹھ کر فیصلہ کرسکتے ہیں، پار لیمانی کمیٹی اس معاملے میں گنجائش پیدا کرسکتی ہے، اتحادی جماعتوں نے الیکشن کی ایک تاریخ پر کوشش کی، انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔بہرحال وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور حکومتی نمائندگان کے غصے کی وجوہات بہت ساری ہیں جس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مبینہ آڈیو لیک، موجودہ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کی ساس کی آڈیولیکس خاص کر شامل ہیں۔اب یہ بحث چل پڑی ہے کہ موجودہ سیاسی حالات، عدالتی فیصلوں پر باقاعدہ طور پر فیملیزاثر انداز ہورہی ہیں جس پر شدید تنقید بھی کی جارہی ہے۔
حالانکہ آڈیو ریکارڈنگ کوکسی صورت اخلاقی جواز نہیں دیا جاسکتا مگر یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ انہی آڈیوز کی ریکارڈنگ پر سابق وزیراعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان برملا بتاتے رہتے تھے کہ یہ ایک اچھا عمل ہے جس سے ہمارے اداروں کو معلومات ملتی ہیں اوراپنے متعلق بتایاکہ میری سیکیورٹی کے لیے تو انتہائی ضروری ہے کہ مجھے کون کال کررہا ہے اور مجھ سے کیا بات چیت ہورہی ہے چونکہ موصوف اس زمانے میں ایک پیج کاراگ ہر جگہ الاپتے رہتے تھے اور آج انکاری ہیں کہ میرے دور میں مجھ سے پوچھے بغیر فیصلے کیے جاتے تھے۔البتہ اب یہاں معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کا ہے اور عدلیہ کسی بھی جمہوری ملک میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آئین کے تحت منصفانہ فیصلہ کرتے ہوئے سب کویکساں انصاف فراہم کرتا ہے مگر اب ان آڈیولیکس کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا اور یہ باتیں اب سپریم کورٹ کے اندر سے بھی کی جارہی ہیں۔جسٹس مظاہرنقوی کے متعلق سپریم کورٹ کے سینئر ججز سمیت بارکونسلز نے یہ آواز اٹھائی،اب اگر ملک کو مزید بڑے بحرانات اور آئینی مسائل سے نکالنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ عدل ہونا چاہئے، مرضی ومنشاء کے مطابق اگر تشریحات کی جانے لگیں گی تو ادارے کا ساکھ متاثر تو ہوگا مگر ملک کو بھی اس کا بڑا نقصان پہنچے گا۔ امید ہے کہ موجودہ حالات میں عدل وانصاف منصفانہ طریقے سے ہوگا تاکہ ملک مستقبل میں کسی بڑے چیلنج سے دوچار ہو نے سے محفوظ رہے۔