وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیاتھا۔ وزیراعظم نے اتحادی ارکان اسمبلی سے مشاورت کی تو اتحادیوں نے انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہمیں آپ پر پورا اعتماد ہے آپ کبھی بھی ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں۔
اگر اعتماد کے ووٹ کا تجزیہ کیاجائے تو اس سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجہ سے ہی یہ حکمت عملی اپنائی گئی تاکہ واضح پیغام جاسکے کہ پارلیمنٹ اس وقت وزیراعظم اور موجودہ حکومت کی پشت پر کھڑی ہے اور پارلیمان کے فیصلوں میں مداخلت یا کسی قسم کے آئینی عمل سے نقصان پر پارلیمنٹ اپنی طاقت کا جواب دے گی چونکہ گزشتہ چند روز سے یہ باتیں بازگشت کررہی تھیں کہ سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ کی جانب سے موجودہ وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کیس میں انہیں فارغ کیاجاسکتا ہے البتہ ایسا نہیں ہوا مگر فیصلے کی تلوار ابھی بھی لٹکی ہوئی ہے اور اس لیے فیصلے سے قبل حکومت اپنی پوری زور آزمائی دکھانے پر لگی ہوئی ہے۔
اور اب تو وزیراعظم نے انتخابات کے حوالے سے اتحادیوں کے ذریعے ہی فیصلہ کرنے کا جواب دیدیا ہے۔ دوسری جانب ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ساتھ انتخابات اور 4 اپریل کے فیصلے پر عمل درآمدکیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت مذاکرات پر مجبور نہیں کرسکتی صرف آئین پرعمل چاہتی ہے۔
کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں نہ کوئی ٹائم لائن، عدالت مناسب حکم نامہ جاری کریگی، برائے مہربانی آئین کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔4 اپریل کو تین رکنی بینچ نے حکومت کو 27 اپریل تک انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کے فنڈز فراہم کرنے کی رپورٹ جمع کرانے کاحکم دیا تھا۔ الیکشن کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کی تیسری مہلت بھی گزرگئی، سپریم کورٹ نے حکومت سے فنڈز جاری کرنے کی رپورٹ جمعرات کو طلب کی تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا کوئی حکم نہیں صرف تجویز ہے۔
قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کے لیے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسا ہی چلے گا، نام دینے میں کیا سائنس ہے؟کیا حکومت نے اپنے 5 نام دیے ہیں؟فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پی ٹی آئی چاہے تو 3 نام دیدیں، پانچ لازمی دیں، حکومت کے نام تین 4 گھنٹے میں فائنل ہوجائیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق نائیک کو بھی مذاکرات میں رکھا جائے تاکہ معاملہ ٹھنڈا رکھا جائے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ نے صرف سینیٹرز کے نام مانگے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت نے نیک نیتی دکھانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے،کوئی ٹائم لائن نہیں دے رہے، آج کا آرڈر جاری کریں گے۔
ہم نہ کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں، نہ کوئی ٹائم لائن، عدالت مناسب حکم نامہ جاری کریگی، برائے مہربانی آئین کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں۔بعدازاں کیس کی سماعت ملتوی ہوگئی۔بہرحال اب معاملہ نام دینے اور مذاکرات سے آگے بڑھ چکا ہے یہ حکومت اور سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ بھی جان چکی ہے یہ جنگ آئینی طریقے سے لڑی جارہی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکمنامہ آئے گا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے فی الحال کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔