سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کی گرفتاری کیخلاف دائر درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، دیگر ججز میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر شریک ہیں۔
پی ٹی آئی کی طرف سے سینئر وکیل حامد خان دلائل دینے سپریم کورٹ پہنچے، گزشتہ روز پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کیخلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔
دن بھر کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو ساڑھے چار بجے عدالت میں پیش کیا جائے، عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد عمران خان کو تاخیر سے پہنچایا گیا، انہیں سخت سکیورٹی میں عدالت لایا گیا تھا ۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے عمران خان سے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو سننا چاہتے ہیں۔
کیس سننے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں ہونے والی گرفتاری کو غیر قانونی دیدیا۔
اسی دوران عدالت کی طرف سے حکم دیا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اسلام آباد ہائیکورٹ سے کل رجوع کریں اور آپ کو عدالت عالیہ کا فیصلہ ہر حال ماننا ہو گا۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیشی کے لیے مہلت دی جائے ، حامد کی درخواست سپریم کورٹ کی جانب سے مسترد کر دی گئی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کل اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلے کی سماعت کرے، جب ایک شخص عدالت آتا ہے تو اس کا مطلب ہے وہ سرنڈر کرتا ہے۔ آپ 8 مئی کو کورٹ میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھے، تمام پروسیس دوبارہ شروع ہونا چاہیے۔
اسی دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہا کہ ذوالفقاربھٹواوربینظیربھٹوجیسےلیڈردوبارہ نہین آئیں گے، اتنے بڑے لیڈرز کو مارنے کے بعد بھی حالات کنٹرول میں رہے۔ خان صاحب سیاسی ماحول سیاست دانوں نے پیدا کرنا ہے، سپریم کورٹ کی وجہ سے آپ آج یہاں کھڑےہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ الزام ہے کہ آپ نے ورکرز نے سڑکوں پرماحول بنایا، آپ اپنا مذمتی بیان عدالت میں ہی دیں گے، وارنٹ قانونی تھے یا نہیں، گرفتاری غیر قانونی تھی۔
اسی دوران عمران خان نے کہا کہ تمام لوگ پُر امن احتجاج کریں، ملک کو نقصان نہ پہنچایاجائے، اپنی 27 سال کی جدوجہد میں کارکنوں کو پر امن رہنے کا پیغام دیا ہے۔سب سے کہتا ہوں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب میں آپ کیوں پیش نہیں ہوئے؟ اس پر جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں نےنیب نوٹس کا جواب دیا تھا، خواجہ حارث کے پاس سارا ریکارڈ موجود ہے۔
سماعت کے دوران عمران خان نے مزید کہا کہ مجھے ہائی کورٹ سے اغواء کیا گیا، مجھے ڈنڈے مارے گئے، ایسا کسی مجرم کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا، مجھے کبھی پولیس لائن اور کبھی کہیں لے کر پھرتے رہے، مجھے کچھ علم نہیں باہر کیا ہوا نہ مجھے پتا ہے، کمانڈو ایکشن کر کے مجھے سر پر ڈنڈے مارے گئے، کریمنل کی طرح مجھے پکڑا گیا۔ جو میرے ساتھ ہوا اس کا ردعمل توآئےگا، مجھ پر دہشت گردی سمیت کئی مقدمات درج ہیں، میں نے کہا مجھے گرفتار کرنا ہے تو وارنٹ دکھاؤ، مجھ پر 100 سے زائد مقدمات بنائے گئے، ایک پارٹی جو الیکشن چاہتی ہے وہ انتشارکیوں چاہےگی؟ انتشاروہ چاہتےہیں جوالیکشن نہیں چاہتے۔
اس سے قبل سماعت کے دوران جسٹس اطہر اللہ نے مزید پوچھا کہ کیا انصاف تک رسائی کے حق کو ختم کیا جا سکتا ہے؟، یہی سوال ہے کہ کسی کو انصاف کے حق سے محروم کیا جاسکتا ہے، کیا مناسب نہ ہوتا کہ نیب رجسٹرار سے اجازت لیتا، نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا؟۔
وکیل عمران خان حامد خان نے جواباً کہا کہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کرانے اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے، بایو میٹرک کرارہے تھے کہ رینجرز نے کمرے پر ہلہ بول دیا، رینجرز کی جانب سے دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا، بایو میٹرک کرانا عدالتی عمل کا حصہ ہے، عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور گرفتاری پُرتشدد ہوئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا، عدالتی حکم کے مطابق درخواست دائر ہوئی تھی مگر مقرر نہیں ہوئی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا بایومیٹرک کے بغیر درخواست دائر ہوسکتی ہے؟۔ حامد خان نے جواب دیا کہ بایومیٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہوسکتی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے، نیب نے ایک ملزم کو سپریم کورٹ کی پارکنگ سے گرفتار کیا تھا، اس سے قبل عدالت نے گرفتاری واپس کروائی اور نیب کیخلاف کارروائی ہوئی تھی، نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی، نیب کی اسی یقین دہانی پر 9 نیب افسران توہین عدالت سے بچے تھے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ عمران خان کو کتنے لوگوں نے گرفتار کیا؟۔ سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ عمران خان کو 80 سے 100 لوگوں نے گرفتار کیا، 100 رینجرز اہلکار عدالتی احاطے میں آئیں تو عدلیہ کا احترام کہاں گیا، 100 لوگوں کے داخلے سے تو احاطے میں خوف پھیل جاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ سپریم کورٹ سے آپ کیا چاہتے ہیں؟۔ عمران خان کے وکیل نے استدعا کی کہ سابق وزیراعظم کی رہائی کا حکم دیا جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت میں سرینڈر کرنیوالا گرفتار ہو تو کیا کوئی عدلیہ پر اعتماد کرے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ سپریم کورٹ سے آپ کیا چاہتے ہیں؟۔ عمران خان کے وکیل نے استدعا کی کہ سابق وزیراعظم کی رہائی کا حکم دیا جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت میں سرینڈر کرنیوالا گرفتار ہو تو کیا کوئی عدلیہ پر اعتماد کرے گا، عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کا عمل سبوتاژ نہیں کیا جاسکتا، عدالت صرف انصاف تک رسائی کے حق کا جائزہ لے گی۔
شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ کارروائی کے دوران عدالتی عملے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وارنٹ کی قانونی حیثیت کا نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے۔
سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے دلائل میں کہا کہ عمران خان پر حملہ ہوا اور سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی، عمران خان دہشت گردوں کے ریڈار پر تھے، رینجرز نے جس انداز سے گرفتاری کی اس کی مثال نہیں ملتی، گرفتاری کے وقت نیب کا تفتیشی افسر بھی موجود نہیں تھا، عمران خان کو ججز گیٹ سے رجسٹرار کی اجازت کے بغیر لے جایا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب کئی سال سے یہ حرکتیں منتخب نمائندوں کے ساتھ کررہا ہے، وقت آگیا ہے کہ نیب کے یہ کام ختم ہوں۔ سلمان صفدر نے بتایا کہ اگلے ہی دن اسد عمر کو ہائیکورٹ سے گرفتار کر لیا گیا۔ جسٹس اطہر نے پوچھا کہ کیا بایومیٹرک کا عمل مکمل ہوگیا تھا؟۔ بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ درخواست کو ڈائری نمبر لگ چکا تھا، درخواست پر اسی دن سماعت کی استدعا بھی کی گئی تھی۔
سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ گرفتاری کے بعد معلوم ہوا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے تھے، سیکریٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ وارنٹ انہیں ابھی تک موصول نہیں ہوئے۔
جسٹس اطہر نے کہا کہ سیاسی قیادت سے بھی عدالتی پیشی پر اچھے ردعمل کی توقع کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد جو ہوا اسے رکنا چاہئے تھا،اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیرقانونی اقدام سے نظر چرائی جاسکے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایسا فیصلہ دینا چاہتے ہیں جس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا، انصاف تک رسائی ہر ملزم کا حق ہے، میانوالی کی ضلعی عدلیہ پر بھی حملہ ہوا، معلوم کریں کہ یہ حملہ کس نے کیا؟، ضلعی عدلیہ پر حملے کا سن کر بہت تکلیف ہوئی۔