|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2023

ملک میں گزشتہ 75سالوں کے دوران طرز حکمرانی،وزرات عظمیٰ،وزرات اعلیٰ، گورنرز، وفاقی وصوبائی وزراء، بیوروکریسی سے لیکر نچلی سطح تک جو نظام کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں شاید ہی ہمیں یہ نظیرملتی ہو کسی نے بھی یہ بات نہیں کہی کہ غریب ملک کے اہم عہدوں پر ہم فائز ہیں ہمیں وہ تمام تر مراعات جو مل رہی ہیں اس سے ہم دستبردار ہوکر محدود تنخواہ پرکام کریں مگر ایسی جرات کسی نے نہیں دکھائی اور نہ ہی پارلیمنٹ میں ایسا بل کبھی آیا کہ بھاری بھرکم تنخواہ، پروٹوکول، گاڑیاں، پیٹرول، ڈیزل سمیت ہر چیز سرکاری خزانے سے نہ دی جائے بلکہ ایک تنخواہ اور مخصوص مراعات ہی دی جائیں ۔

چونکہ حکمرانوں کے اپنے ذاتی مفادات زیادہ ہیں اس لیے انہوں نے اس طرح کا اقدام کبھی اپنے لوگوںسے بوجھ ہٹانے کے لیے نہیں اٹھایا،ان کے اور اہلخانہ سمیت عزیزواقارب منظور نظرافراد کی شاندار زندگی کو دیکھتے ہوئے اس میں کوئی ابہام نہیں ہونی چاہئے کہ یہ صرف انہی مراعات کے ذریعے شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ کرپشن کا عنصر بھی موجود ہے گوکہ سب نہیں مگر ایک بڑی تعداد کو گنا جاسکتا ہے جن کے پاس ماضی میں کیا تھا اورآج ان کے اثاثے کیاہیں۔

ہمارے یہاں حکمران ایمانداری، دیانتداری، وفاداری کے حوالے سے لیکچر بہت زیادہ دیتے ہیں مگر اس پر عمل ذاتی طور پر نہیں کرتے یہ صرف حکمرانوں یعنی سیاستدانوں نہیں بلکہ سب پر لاگو ہوتا ہے جو سرکاری خزانے سے شاندار زندگی گزار رہے ہیں اور اس کے ساتھ پروجیکٹس ودیگر معاملات کے ذریعے رقم بٹورتے ہوئے بیرونی ممالک کاروبار سمیت اثاثے خریدتے ہیں۔آج ملک میں معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ شاہی انداز اور کرپشن ہے جس کا کبھی کسی نے نہیں سوچا ۔

اگر ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ تنخواہ لیتے، مراعات زیادہ نہ لیتے، کرپشن کو روکتے، منظور نظرافراد کو نہ نوازتے، سیاسی جوڑتوڑ یا تخت کو بچانے کے لیے قومی خزانے کی رقم کا بے دریغ استعمال سیاسی مفادات کے لیے نہ کرتے تو آج ملک بہت آگے نکل چکا ہوتا اور عام لوگوں کی زندگی میں بڑی تبدیلی آتی ،لیکن افسوس اس کا احساس نہیں کیا گیامگر اب جس طرح سے پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی متحرک ہوکر تنخواہوں سمیت دیگر مراعات پر کھل کر بات کررہی ہے جس سے اہم معلومات عام لوگوں تک پہنچ رہی ہیں یہ انتہائی خوش آئندبات ہے کہ معلوم ہوکہ سرکاری خزانے سے کتنی رقم کس کو مل رہی ہے جو عوام کے ٹیکسز سے وصول کی جارہی ہے۔

گزشتہ دنوں یہ انکشاف سامنے آیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تنخواہ وصول کرنے میں پاکستان میں پہلے نمبر پر ہیں۔یہ انکشاف پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کے اجلاس میں ہوا ۔چیئرمین پی اے سی نور عالم خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں صدر، وزیراعظم اور ججوں کی گراس سیلری کی تفصیلات پیش کی گئیں۔اس موقع پر انکشاف ہوا کہ چیف جسٹس کی تنخواہ وزیراعظم اور وفاقی وزراء سے بھی زیادہ ہے۔چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے تفصیلات پڑھتے ہوئے بتایا کہ صدر مملکت کی تنخواہ 8 لاکھ 96 ہزار 550 روپے ہے، وزیراعظم کی تنخواہ 2 لاکھ 1 ہزار 574 روپے ہے۔

وفاقی وزیرکی تنخواہ 3 لاکھ 38 ہزار125 روپے ہے، ممبرقومی اسمبلی کی تنخواہ 1 لاکھ 88 ہزار روپے ہے جب کہ چیف جسٹس پاکستان کی تنخواہ 15 لاکھ 27 ہزار 399 روپے ہے۔چیئرمین پی اے سی نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 14 لاکھ 70 ہزار 711 روپے ہے، گریڈ22 کے وفاقی افسر کی تنخواہ 5 لاکھ 91 ہزار 475 روپے ہے۔نور عالم خان نے بتایا کہ ان تمام عہدیداروں کی مراعات اس کے علاوہ ہیں۔یہ معلومات عام لوگوں کو چونکا دینے والی ہیں اگر اسی طرح سے کرپشن سمیت دیگر مراعات کے متعلق سب کی معلومات سامنے آجائیں تو یقینا ہوش اڑ جائینگے کہ کون کیا کررہا ہے۔

اور اس ملک کے ساتھ دہائیوں سے کس طرح واردات ہورہی ہے۔ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ عوامی ٹیکس سے جس طرح سے تنخواہیں اور مراعات لی جارہی ہیں اس طرز عمل کو بند کیا جائے اور اس کے لیے واحد ادارہ پارلیمنٹ ہے جو قانون سازی کے ذریعے یہ سب کچھ کرسکتی ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے امید کرتے ہیں کہ پارلیمانی نمائندگان اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مثال قائم کرینگے ۔