|

وقتِ اشاعت :   May 21 – 2023

وفاقی حکومت کی جانب سے عدلیہ کے حوالے سے ہونے والی آڈیو لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کے قیام پر عمران خان کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ اپنی ٹوئٹ میں عمران خان نے کہا کہ آڈیو لیک انکوائری کمیشن کے ضوابط میں کئی چیزیں دانستہ چھوڑی گئیں، انکوائری کمیشن میں یہ نقطہ نہیں رکھاگیاکہ وزیراعظم ہاؤس کی غیر آئینی جاسوسی میں کون ملوث ہے؟ انکوائری کمیشن میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ حاضر سروس جج صاحبان کی غیرآئینی جاسوسی میں کون ملوث ہے؟عمران خان نے مزید کہا کہ انکوائری کمیشن کو اس انویسٹی گیشن کا اختیار ہونا چاہیے کہ سرکردہ عوامی عہدیداروں سمیت شہریوں کے ٹیلی فون کون طاقتور عناصر ریکارڈ کرتے ہیں؟

سابق وزیراعظم نے کہا کہ سرکردہ عوامی عہدیداروں سمیت شہریوں کے ٹیلی فون ریکارڈ کرنا آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت حاصل پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزی ہے، فون کال ٹیمپرنگ، فون ٹیپنگ سے غیر قانونی حاصل ڈیٹا لیک کرنے والوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قانون کی عمل داری والی جمہوریتوں میں ریاست کو زندگی کے بعض پہلوؤں میں گھسنا نہیں چاہیے، وہ کون ہیں جو قانون سے بالا اور وزیراعظم کی کمان سے بھی باہر ہیں؟ وہ کون ہیں جنہیں استثنیٰ حاصل ہے اور وہ غیر قانونی طور پر جاسوسی کر رہے ہیں۔

آڈیو انکوائری کمیشن کو ایسے عناصر کی شناخت کرنی چاہیے۔ خیال رہے کہ کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہوں گے جب کہ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ، جسٹس عامر فاروق بھی کمیشن کے ممبرہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان آڈیوزریکارڈنگز کو جائز قرار دیتے رہے ہیں کیونکہ وہ اس وقت مکمل طاقت میں تھے مخالفین کے ساتھ جس طرح کا برتائو عمران خان نے اپنایا کسی بھی سیاسی جمہوری حکومت میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آج جس طرح سے آڈیو ریکارڈنگز کو خان صاحب ناجائز قرار دے رہے ہیں۔

انہی آڈیو لیکس کے بل پر مخالفین کے خلاف سیاسی وار کرتے رہتے تھے مگر مکافات عمل بھی تو ہے جس کا سامنا اب عمران خان کررہے ہیں۔ بہرحال انہی آڈیو لیکس کو اس وقت سیاسی و صحافتی حلقے ناجائز قرار دے رہے تھے کہ کسی کے فون اور نجی بات چیت کی خفیہ ریکارڈنگ غیر مہذبانہ عمل ہے ،یہ نہیں ہونا چاہئے جبکہ عمران خان صاحب فرماتے تھے کہ چور ڈاکو اس سے گھبراتے ہیں یہ ہماری اپنی سیکیورٹی کیلئے بہترین طریقہ ہے۔ بہرحال اب تیر کمان سے نکل چکا ہے اور خان صاحب نشانے پر آگئے ہیں۔ ماضی سے اگر کچھ نہیں سیکھا جاتا تو اسے بھگتنا پڑتا ہے۔