پی ٹی آئی کی سیاست اب مکمل طور پر وینٹی لیٹر پر پہنچ چکی ہے ،تحریک انصاف کی تمام اہم وکٹیں گرچکی ہیں اور اس کی وجہ عمران خان کامائنڈ سیٹ ہے جو ون مین شو کی طرح پارٹی کو چلاتا آرہا ہے۔ عمران خان اپنے سے آگے کسی کو نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی کسی کو برداشت کر سکتے ہیں جس کی واضح مثال جہانگیر ترین، علیم عادل شیخ سمیت دیگر اہم اور قریبی دوست ہیں جنہوں نے پہلے سے ان سے اپنی رائیں جدا کرلیں۔ جہانگیر ترین کی نااہلی کے پیچھے عمران خان خود مبینہ طور پر ملوث تھے جس کے شواہد بھی مختلف ذرائع سے آچکے ہیں۔ عمران خان اپنی انا اور خودغرض لیڈرشپ کے سواکچھ نہیں سوچتا۔ 9مئی کو ہونے والے پُرتشدد واقعات میں متضادات بیانات اور مذمتی بیان دینے میں تاخیر اس کے جھوٹ کی سیاست کی قلعی کھول دیتے ہیں۔ بہرحال اب پارٹی سے بہت سی شخصیات نے باقاعدہ علیحدگی اختیار کرنا شروع کردی ہے۔ 9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ اور پرتشدد واقعات کے بعد اب تک شیریں مزاری سمیت پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنماء، سابق وزراء اور ارکان اسمبلی احتجاجاً جماعت کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے سیاست اور پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے کااعلان کردیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بیان حلفی بھی جمع کروادیا ہے،جی ایچ کیو پر حملے کی سب کو مذمت کرنی چاہئے۔پی ٹی آئی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں بنوں گی،9مئی کے واقعات کی سب کو مذمت کرنی چاہیے، میں بھی کرتی ہوں۔12روز کے دوران گرفتاری اور رہائی کے چکر میں میری صحت پر اثر پڑا، اب سیاست نہیں سب سے پہلے میرا خاندان ہے۔ سابق وزیر فیاض الحسن چوہان نے بھی پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کردیا۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر نے کہا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے،پاکستان کے 24 کروڑ عوام دکھی ہیں۔میں گزشتہ ایک سال سے پارٹی میں کھڈے لائن تھا۔زمان پارک میں داخلہ بند تھا،میری قربانیوں کے بعد مجھے فوج کا بندہ سمجھاجاتاتھا۔۔ پی ٹی آئی کراچی کے صدر آفتاب صدیقی نے 21 مئی کو پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی۔
وہ این اے 247 سے 2018 میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔خیبر پختون خوا سے سابق ایم این اے عثمان خان ترکئی نے 21 مئی کو تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا۔وہ 2018 میں این اے 12 صوابی سے ایم این اے بنے تھے۔عمران خان کی وزارت عظمیٰ میں مشیر ماحولیات ملک امین اسلم نے 18 مئی کو پی ٹی آئی سے راستے جدا کر لئے۔ سابق وزیر عامر محمود کیانی نے 17 مئی کو عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ وہ 2018 میں این اے 61 راولپنڈی سے منتخب ہوئے تھے۔کراچی سے رکن قومی اسمبلی اور سرگرم رہنما محمود مولوی نے 16 مئی کو جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ وہ 2018 کا الیکشن، ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی سے ہارے۔اگست 2022 میں عامر لیاقت کے انتقال کے بعد خالی ہونے والی نشست سے کامیاب ہو کر اسمبلی پہنچے تھے۔2018 میں پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے اجمل وزیر نے 21 مئی کو جماعت سے علیحدگی اختیار کی۔
انہوں نے 27 اگست 2019 کو ضمنی الیکشن میں صوبائی نشست پر فتح حاصل کی تھی۔ خیبر پختون خوا حکومت میں وزیر صحت رہنے والے ہشام انعام اللہ نے 20 مئی کو پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کیا۔ وہ 2018 میں پی کے 92 لکی مروت سے رکن صوبائی اسمبلی بنے۔ملک جواد حسین نے 19 مئی کو پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا۔انہوں نے 2018 میں این اے 47 سے کامیابی حاصل کی۔انیس مئی کو بلوچستان کے سابق وزیر معدنیات مبین خلجی نے بھی راہیں جدا کر لیں۔ وہ 2018 میں پی بی 28 کوئٹہ سے رکن بلوچستان اسمبلی بنے تھے۔23مئی کو پنجاب کے سابق صوبائی وزیر سعید الحسن شاہ پارٹی سے الگ ہوئے۔ وہ 2018 کے الیکشن میں پی پی 46 نارووال سے منتخب ہوئے تھے۔پی ٹی آئی چھوڑنے والوں میں جماعت کے ڈپٹی انفارمیشن سیکریٹری ڈاکٹر محمد امجد بھی شامل ہیں،وہ 18 مئی کو پارٹی چھوڑ گئے۔
رکن سندھ اسمبلی سنجے گنگوانی، کریم بخش گبول اور ڈاکٹر عمران شاہ نے بھی پارٹی کو خیرباد کہہ دیا۔ چنیوٹ سے پی ٹی آئی کے ضلعی صدر ذوالفقار علی شاہ اور ملتان سے سابق رکن پنجاب اسمبلی ظہیر علیزئی نے بھی جماعت کو خیرباد کہا۔اوچ شریف سے افتخار حسن گیلانی اور خانیوال سے عبدالرزاق نیازی نے بھی پی ٹی آئی سے راہیں جدا کر لیں۔ بہرحال جب شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری سمیت دیگر رہنماء پارٹی کو خیرباد کہہ دیں تو پارٹی کہاں کھڑی ہوگی اس کا منظر نامہ واضح ہے کہ مستقبل میں پی ٹی آئی کسی بھی جگہ دکھائی نہیں دے رہی جس کاذمہ دار خود عمران خان ہیں۔