کوئٹہ: وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو اور کالعدم تنظیم کے سابق کمانڈر گلزار امام شمبے نے کہا ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، مسلح جنگ سے بلوچستان پسماندگی کا شکار ہوگیا ہے،مسلح افراد آئین اور قانون کے تحت مذاکرات کا راستہ اپنائیں اور اپنے حقوق کی پرامن جدوجہد کریں۔
یہ بات انہوں نے منگل کو کوئٹہ کے سول سیکرٹریٹ کے سکندر جمالی آڈیٹوریم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر سینیٹر آغا عمر احمد زئی بھی موجود تھے۔ وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ پاکستان اور بلوچستان دہشتگردی کا شکار ہیں یہاں دنیا کی تمام ایجنسیوں نے کام حالات خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیاست اور نظریات کو یک طرف کر کے ہمیں ملک کی بنیادوں کے لئے ایک پیج پر آنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ریاست بات چیت اور امن پر یقین رکھتی ہے چیزوں کو بات چیت کے ذریعے ہی اختتام کی جانب لیکر جانا ہوگا قانون میں رہتے ہوئے جو بھی اپنا حق مانگے ہم اسے تسلیم کریں گے جو ریاست کی بنیادوں کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کریگا انکے لئے کوئی آپشن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست صرف آپریشن نہیں کر رہی جب کوئی مرتا ہے تو ہمیں بھی دکھ ہوتا ہے مگر ریاست کو نقصان پہنچانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائیگی۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کالعدم تنظیم کے سابق کمانڈر گلزار امام شمبے نے کہا کہ انکا تعلق پنجگور کے علاقے پروم ہے اور وہ گزشتہ 15سال سے بلوچستان میں جاری شورش کا متحرک حصہ رہے ہیں وہ اپنے لوگوں کی حقوق کی حفاظت کے لئے اس عمل کا حصہ بنے اور بعد میں گرفتار ہوئے جس کے بعد حالات اور واقعات کا تجزیہ کرنے،اکابرین سے ملنے کے بعد اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ بلوچ قوم کے حقوق کی جنگ آئینی اور سیاسی طریقہ کار سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ غلط تھا مسائل گھمبیر ہوتے چلے جارہے تھے اس سے نقصان صرف بلوچ قوم کا ہوا ہے مسلح جنگ کی وجہ سے بلوچستان پتھر کے زمانے میں چلا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میری باقی لوگوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ واپسی کا راستہ اختیار کریں لڑائی سے بلوچستان دیگر صوبوں کی نسبت پسماندگی کا شکار ہوگیا ہے بلوچ طالب علم اور نوجوان بھی لڑائی میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔انہوں نے کہا کہ آج تک جتنے بھی مسائل ہوئے انکا پر امن بات چیت کے ذریعے ہی حل نکالا گیا ہے
بلوچستان کی پسماندگی کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں،ریاست اور مسلح تنظیمیں ذمہ دار ہیں لیکن اب اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ ریاستی اداروں کو مسائل کا ادراک ہے اور اگر کوئی بات چیت کرنا چاہیے تو ریاست اسکی بات سنتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست ماں کا کردار ادا کرتی ہے مسلح جنگ میں جو نقصانات ہوئے ان پر معافی کا طلب گار ہوں۔ایک سوال کے جواب میں گلزار امام نے کہا کہ جہاں بھی جنگیں ہوتی ہیں وہا ں مفادات ہوتے ہیں بلوچ علاقے پر دنیا کی نظریں ہیں انکے اس جنگ میں معاونت کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا
کوئی جنگ ایسے نہیں لڑی جاتی کسی نہ کسی جگہ سے معاونت مل رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کی کوشش کرونگا اور ساتھ ہی اپنے ساتھیوں سے رابطے کی کوشش کرونگا تاکہ وہ بھی واپسی کا راستہ اپنائیں اور اپنا کردار ادا کریں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بے روزگاری، مسنگ پرسنز، وسائل اور فنڈز کا درست استعمال نہ ہونا اہم مسائل ہیں ان مسائل کے حل کے لئے سوچنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست تحفظات دور کرنے میں سنجیدہ ہے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر آغا عمر احمدزئی نے کہا کہ بلوچ قوم نے پاکستان کے لئے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں ملک میں مفاہمتی عمل چلنا چاہیے وفاقی حکومت کوپالیسی بنا کر معافی کے لئے راستہ کھولنا چاہیے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کر کے انتہا ء پسندی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔