|

وقتِ اشاعت :   June 4 – 2023

کوئٹہ: سنیئر سیاستدان سابق سینیٹرنوابزادہ حاجی میرلشکری خان رئیسانی نے کہاہے کہ بلوچستان کے لوگوں کا اعتماد ہی میرا اعزاز، آباؤ اجداد کی تاریخ اور سیاسی کارکنوں کی وفاء میرا سرمایہ ہے، صوبے کی سیاسی تاریخ میں شرمندہ نہیں، سیاست کبھی ذاتی مفاد، عہدؤں اور مراعات کیلئے نہیں کی، صوبے کے حقوق، قومی عزت، کردار اور وقار کیلئے سرمال قربان کیا۔

اب بھی ذاتی تکالیف کا بوجھ برداشت کررہا ہوں لیکن موجودہ اور آئندہ نسلوں کے سامنے شرمندگی کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا۔ مائنس بلوچستان سیاست نہ پہلے قبول کی نہ آئندہ قبول کریں گے،وہ منصب اور اقتدار جو بلوچستان کے پسماندہ اور مفلوک الحال عوام کے سر پر پیر رکھ کر ملے ایسی ہزاروں وزارتوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔

یہ بات انہوں نے ہفتہ کو سراون ہاؤس کوئٹہ میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے سیاسی کارکنوں سے ملاقات میں بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ سینٹ کی رکنیت کے ڈھائی سالہ دور کے دوران آغاز حقوق بلوچستان پیکج، این ایف سی ایوارڈ، ایران سے گوادر کو بجلی کی فراہمی کا منصوبہ،اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی خودمختیاری، ہزاروں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا۔ کچھی میں پانچ بیراج قائم کیے جس سے آج بھی ہزاروں ایکٹر زمین سیرآب اور لوگ کو روزگار مل رہا ہے۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف پارلیمانی کمیشن بنایا، گوادر کو بلوچستان کا سرمائی دارلحکومت بناکر وہاں 75 ہزار ایکٹر اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کرائی، کچھی میں بزرگوں دہقانوں کی 30 ہزار ایکٹر زمین سے قبضہ چھڑایا مگر کچھ ایسی پالیسیاں تھیں جن کے باعث اپنے موجودہ اور آئندہ نسلوں کے سامنے شرمندگی کا بوجھ نہیں اٹھاسکتا تھا ۔

جس کی وجہ سے سینیٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا، آج بھی پارلیمنٹ میں بلوچستان کی نشستوں پر لوگ براجمان ہیں مگریہ لوگ بلوچستان کا نام لینے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ مائنس بلوچستان سیاست کے بدلے مراعات سے نوازے گئے لوگوں کو بلوچستان کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2018ء کے انتخابات میں بلوچستان بالخصوص کوئٹہ شہر کے عوام کو ان کی نمائندگی کے حق سے محروم رکھنے کیلئے ایک جعلی امیدوار کو پارلیمنٹ میں مسلط کیا گیا ان پانچ سالوں کے دوران کوئٹہ شہر میں ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی کیونکہ وہ عوام کا نمائندہ نہی۔

ں بلکہ کسی اور کاتھا۔ ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کا راستہ روکنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر اسے کوئی نہیں روک سکتا۔پاکستان اس وقت ترقی کرئے گا جب پارلیمنٹ میں ڈائیلاگ ہوگا، حق مانگے والے نہیں حق چھینے والے پارلیمنٹ توڑتے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ گوادر میں سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن، لوگوں کو گرفتار کرکے کوئٹہ منتقل کیا گیا تاکہ کوئٹہ میں کوئی ان کے پاس نہ جائے اور انہیں احساس ہو کہ کوئٹہ کے لوگ ان کے ساتھ نہیں اور اس بنیاد پر بلوچستان تقسیم ہو مگر ان تمام سیاسی کارکنوں کا مشکور ہوں جنہوں نے حق دو تحریک کے سیاسی اسیران کی دل جوئی کرکے اس تقسیم کا راستہ روکا، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں راتوں رات باپ بنایا گیا ۔

اب باپ کے ختم ہونے کے بعد اسٹیبشلمنٹ کے وفاداروں کو ایک نئی پارٹی میں ضم کیاجارہا ہے اور ایک نئے نام سے آکر بلوچستان کے لوگوں سے ووٹ مانگیں گے اور بلوچستان کی بدحالی میں اضافہ کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف دو ماہ میں پگھل گئی مگر بلوچستان کے لوگ اپنی 70 سالہ قومی جدوجہد میں کبھی پسپا نہیں ہوے نہ ہی اپنی جدوجہد سے ایک انچ پیچھے ہٹے۔