بلوچستان حکومت اور وفاق کے درمیان پھر ٹکراؤ پیدا ہوا ہے، اس بار حکومتی سطح پر وفاقی حکومتی رویہ کے خلاف شدید ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے، جس کی بنیادی وجہ مالی مسائل، منصوبوں پر صوبے کے جائز حقوق سمیت این ایف سی ایوارڈ بھی شامل ہے۔
جبکہ حالیہ سیلاب کی تباہ کاری سے بلوچستان میں جو نقصانات ہوئے اس پر بھی وفاق کی جانب سے سست روی پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر قدوس بزنجو نے وفاقی بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی وفاقی بجٹ سیشن کا حصہ نہیں بنے گی اور ہمارے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز وفاقی بجٹ سیشن میں شرکت نہیں کریں گے۔مرکزی صدر بی اے پی نے اپنے اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ کو اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی واضح ہدایات جاری کردی ہیں، پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے رکن قومی اسمبلی و سینٹ کے خلاف انضباطی کاروائی کر کے ڈی سیٹ کر دیا جائے گا۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ این ای سی کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی مرکزی حکومت کے رویے کی وجہ سے کیا تھا،ہمارا صوبہ شدید مالی مسائل کا شکار ہے، اور ان مسائل کی بنیادی وجہ وفاقی حکومت کا عدم تعاون ہے۔بلوچستان کی ترقی اور پسماندگی دور کرنے کے لیے اسلام آباد میں بیٹھ کر صرف باتیں کی جاتی ہیں لیکن صوبے کے زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں، یہاں عملی اقدامات کی ضرورت ہے، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، سردار اختر مینگل اور صوبے کے دیگر قومی لیڈروں سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے مؤقف کو تقویت دیں۔ میر قدوس بزنجو کا کہنا تھا پی پی ایل کئی سالوں سے ہمارے واجبات ادا نہیں کررہی جو 45 ارب روپے سے زائد تک پہنچ چکے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان سے کسی معاہدے کے بغیر سوئی گیس فیلڈ میں پی پی ایل کا آپریشن جاری ہے، پی پی ایل کمپنی کا انتظامی اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے، وفاقی حکومت واجبات کے ادائیگی میں نہ تو کوئی دلچسپی لے رہی ہے۔
اور نہ ہی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل بلوچستان کے منصوبے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے عدم تکمیل کا شکار ہیں، ان منصوبوں کے لیے مختص فنڈز کا نصف بھی جاری نہیں کیا جاتا، صوبے کے وفاقی منصوبوں کے ٹینڈر تو ہوتے ہیں لیکن فنڈز کہیں اور منتقل کر دیئے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال سیلاب میں بلوچستان کی قومی شاہراہوں کو شدید نقصان پہنچا، این ایچ اے نے ان شاہراہوں کی بحالی کے لئے کوئی کام نہیں کیا، ان شاہراہوں پر سفر کر کے محسوس ہوتا ہے کہ ہم پھر سے پتھر کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں، کراچی کو کوئٹہ اور سینٹرل ایشیاء سے منسلک کرنے والی شاہراہ کے 8 پل سیلاب میں بہہ گیے تھے، لیکن ایک سال گزر جانے کے بعد بھی متبادل کچے راستوں سے گاڑیاں گزرتی ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف نے ایک سال قبل وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں منعقدہ تقریب میں چمن کراچی شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا، اور کہا تھا کہ 18 ماہ میں یہ منصوبہ مکمل ہوگا، لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس منصوبہ کا 20 فیصد کام بھی نہیں ہوا، اور جس رفتار سے کام جاری ہے اور فنڈز دیے جا رہے ہیں یہ منصوبہ 18 ماہ تو کیا 18 سال میں بھی مکمل نہیں ہو گا۔ قدوس بزنجو نے مزید کہا کہ این ایف سی کا ہمارا شیئر بروقت نہیں ملتا اور اس میں کٹوتی بھی کی جاتی ہے۔
وزیراعظم کی جانب سے سیلاب کے دوران اعلان کردہ 10 ارب روپے بھی نہیں دیے گئے۔ 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر ساتواں این ایف سی ایوارڈ اپنی مدت پوری کر چکا، ایوارڈ میں وسائل کی تقسیم کی بنیاد آبادی تھی، حالات کی خرابی کے باعث بلوچستان میں 1998 کی مردم شماری نامکمل رہی، جس کا نقصان ہمیں وسائل کی تقسیم میں ہوا، ہمارا مطالبہ ہے کہ نیا این ایف سی ایوارڈ فوری طور پر کیا جائے جو آئینی تقاضہ بھی ہے، نئی مردم شماری کے مطابق نیا این ایف سی ایوارڈ نہ ہونے سے بلوچستان کو سالانہ 10 ارب سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے مطالبہ کرتے ہوئے تنبیہہ کی کہ وفاقی حکومت ہمارے مطالبات اور موقف کو سنجیدگی سے لے، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وفاق اور صوبے میں پیدا خلیج مزید بڑھے گی جو وفاق کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
بہرحال ماضی میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وفاقی حکومت کے خلاف سخت گیر رویہ انہی نکات کی بنیاد اپنایا جاتا رہا ہے کہ بلوچستان کے وسائل سے وفاق اور کمپنیاں اپنامنافع لے جاتی ہیں مگر بلوچستان کو اس کا آئینی حق تک نہیں دیا جاتا، ترقیاتی اسکیموں کے لئے بھی فنڈز فراہم نہیں کئے جاتے اور نہ ہی وفاقی سطح پر کوئی مثالی منصوبہ بلوچستان کو دیا گیا ہے ایک لمبی فہرست ہے جس میں سے بعض کی نشاندہی خود وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کی ہے، اب وزیراعلیٰ بلوچستان کے بجٹ بائیکاٹ اور وفاقی رویہ کے خلاف سخت گیر فیصلے کے بعد مرکز میں بیٹھی حکومت معاملات کو سنجیدگی سے لے گی یا نہیں۔ بہرحال ماضی کے روش کو وفاق کو ترک کرنا ہوگا بلوچستان کے مسائل اور معاملات کو سنجیدگی سے لینا ہوگا نہیں تو موجودہ خلیج مزید مسائل کا باعث بنے گی۔