بلوچستان حکومت آئندہ مالی سال کا بجٹ تیار نہ کرسکی جس کے باعث بجٹ اجلاس سے چند گھنٹے قبل اجلاس کا شیڈول تبدیل کردیا گیا۔ محکمہ خزانہ کے ذرائع کے مطابق بلوچستان کا آئندہ مالی سال کا بجٹ تاخیر کا شکار ہوگیا ہے جس کی وجہ صوبے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا فائنل نہ ہونا بتایا جارہا ہے۔محکمہ خزانہ نے بجٹ تیاری کے حوالے سے مزید وقت مانگ لیا ہے۔بلوچستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں تاخیر کی وجہ سے بجٹ اجلاس کا شیڈول تبدیل کردیاگیا ہے۔سیکرٹری اسمبلی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گورنر بلوچستان نے صوبائی اسمبلی کا بجٹ اجلاس 16 جون کے بجائے 19جون کو شام چار بجے طلب کیا ہے۔
ذرائع محکمہ خزانہ کے مطابق بلوچستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کاحجم 700 ارب روپے تک ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں آمدنی کا تخمینہ 529 ارب 32کروڑ روپے ہے جب کہ بجٹ کا خسارہ 150ارب سے زائد ہونے کا امکان ہے، ترقیاتی بجٹ 200 ارب روپے کے لگ بھگ ہوسکتا ہے جبکہ بجٹ میں 5 ہزار سے زائد ملازمتیں فراہم کرنے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں30 فیصد اضافے کی تجویز کی گئی ہے۔دوسری جانب اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد جمالی نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بجٹ سے لنڈے کے کاروبار کرنے والوں کو فائدہ ہوگا کیونکہ جوتے، موزے سمیت ان اشیا ء پر رعایت دی گئی ہے جن کا تعلق لنڈے کے کاروبار سے ہے لہٰذا اب لوگوں کو لنڈے کا کاروبار کرنا چاہیے۔دلچسپ بات ہے کہ اسپیکر بلوچستان اسمبلی میرجان محمد جمالی بلوچستان عوامی پارٹی کے سرخیل رہنماء ہیں اگر وہ اپنی ہی جماعت کی حکومت کے بجٹ سے مطمئن نہیں اور جس طرح انہوں نے بجٹ پر ریمارکس دیئے ہیں گویا یہ عام طور پرکسی سیاسی شخصیت پر طنز ہو ۔ بہرحال بلوچستان کے بجٹ پر ماضی میں بھی بہت سارے سوالات اٹھائے گئے تھے۔
جب سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے میڈیا سے بات چیت کے دوران باقاعدہ یہ بات کہی تھی کہ میں نے خود بجٹ کو نہیں دیکھا تھا اس ایک جملے نے سب کو دنگ کرکے رکھ دیاکہ ملک کے ایک بڑے صوبے اور پسماندگی اورمحرومی سے شکار خطے کا ایگزیکٹیو اپنی ہی حکومت کے بجٹ سے لاعلم ہیں ۔اس کی تیاری کس نے کی؟ بجٹ میں ترقیاتی غیر ترقیاتی اسکیمات کس نے رکھے؟ عام لوگوں کے ریلیف کیلئے کیااقدامات اٹھائے گئے ؟ ملازمین کی تنخواہوں، پنشن کا فیصلہ کس نے بجٹ میں کیا ہے؟ اس طرح کے انگنت سوالات نے جنم لیا اور اپنے ہی بیان پر انہیں بہت شرمندگی اٹھانی پڑی اور وضاحتیں دینا شروع کردیں مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا ،وضاحتیں بے اثر و بے معنی ہو کررہ گئیں ۔ بلوچستان کے مقدمے کو لڑنے کی بجائے اپنی غیر سنجیدگی دکھانے سے انتہائی منفی اثرات ہی مرتب ہونگے پھر دوسرے کس طرح سے بلوچستان کو سنجیدگی سے لیں گے، وفاقی حکومت سمیت میڈیا کے سامنے بلوچستان کے انتہائی اہم نوعیت کے مسائل کو کس طرح سے اٹھایا جائے اور ان کو حل کرنے کی تجویزدی جائے۔ بجٹ ایک عام ایونٹ یا محض پریس کانفرنس کے ذریعے کسی مسئلے کو ایڈریس کرنے کا معاملہ نہیں بلکہ عوام کے پیسے ہیں جنہیں ان کی ترقی، فلاح وبہبود پر خرچ کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے مکمل پلاننگ کرنی پڑتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بلوچستان کے سیاستدان خود ہی حکومت میں رہ کر اپنے بجٹ سے مطمئن نہیں تو پھر ان کی کارکردگی پر تنقید تو ضرور ہوگی پھریہ شکوہ نہ کیاجائے کہ وفاقی حکومتی نمائندگان ہمیں سنجیدہ نہیں لیتے، پہلے خود سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، پھر شکوہ کریں۔