کوئٹہ:بلوچستان میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار دیگر سرکاری شعبوں کی مانند انتہائی دگرگوں ہے صوبے کے دور دراز علاقوں میں صحت کی سہولیات کاتوخیال بھی محال ہے کوئٹہ دارالحکومت ہونے کے باوجود یہاں کے سرکاری ہسپتال نہ صرف محض خستہ حال عمارتوں پر مشتمل ہیں بلکہ یہاں بھی صحت کی سہولیات کا خیال و گمان کرنا خام خیال کے زمرے میں آتاہے۔
سول ہسپتال کوئٹہ اپنی بڑی بوسیدہ عمارت کی مانند صحت کی سہولیات سے متعلق بھی اس قدر تباہ حالی کا شکار ہے۔سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں ادویات،جدید مشینری،سمیت عملہ کی کمی اورحکومتی عدم توجہی کا شکار ہے۔سول ہسپتا ل میں تعینات بڑے بڑے سینئر ڈاکٹرزتنخواہ مراعات اور سہولیات تو سمیٹتے ہیں مگر فرائض کی انجام دہی کے وقت کوئی بھی نظر نہیں آتا۔سول ہسپتال کو ڈاکٹر اپنے نجی ہسپتالوں کے لئے اوپی ڈی کے طور پراستعمال کرتے ہیں جہاں محض مریضو ں کو اپنے نجی ہسپتالوں میں آنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
اتنے بڑے ہسپتال میں علاج کے لئے آنے والے مریضوں کو ادویات میسر نہیں اور نہ ہی بیماری کی تشخیص کے لئے ٹیسٹوں کی سہولت موجود ہے مریض ادویات خریدنے اور ٹیسٹ باہر سے پرائیویٹ لیبارٹریوں سے مہنگے داموں کرانے پر مجبور ہیں عوامی حلقوں نے چیف جسٹس آف بلوچستان کمانڈر 12 کور اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں انسان اپنی روٹی پوری نہیں کرسکھ رہا جب کہ سرکاری ہسپتال میں آنے والے مریضوں کو مفت ادویات اور دیگر سہولیات بھی دستیاب نہیں شہری مریض کو جب ہسپتال میں لاتے ہیں
تو انہیں سب سے پہلے ٹیسٹوں کی ایک لمبی فہرست تھما دی جاتی ہے کہ یہ ٹیسٹ ضروری ہیں یہ جلدی سے کروا کر لاؤ جب ہم غریب مریض سرکاری ہسپتال کی لیبارٹری پر جاتے ہیں تو وہاں پر صرف CBC کا ایک ٹیسٹ کی سہولت دستیاب ہے باقی تمام ٹیسٹ باہر سے پرائیویٹ لیبارٹریوں سے کرانے کا کہا جاتا ہے پرائیویٹ لیبارٹریز کی بھاری بھر کم فیس اور ٹیسٹ کرنے کا معیار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جب کہ محکمہ صحت اور وزارت صحت کی جانب سے گزشتہ سال ادویات کی خریداری کے لئے رکھا جانے والے بجٹ ادویات کی بروقت خریداری نہ کرنے کی وجہ سے لیپس ہو چکا ہے اور غریب عوام سرکاری ہسپتالوں میں مفت سہولت سے محروم ہیں اعلیٰ حکام اس کا نوٹس لیں اور جو بھی اس عمل میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کرکے انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں