ملک میں نگراں سیٹ اپ، عام انتخابات، میاں محمد نوازشریف کی وطن واپسی سمیت مستقبل میں حکومت سازی کے حوالے سے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اہم ملاقاتیں جاری ہیں۔
خاص کر پنجاب پر دونوں جماعتوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں اور ان کا ہدف بھی پنجاب کے اندر سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر ہے جبکہ نگراں سیٹ اپ بھی خاص اہمیت اختیار کرتی جارہی ہے چونکہ الیکشن اسی نگراں سیٹ اپ کی نگرانی میں ہونے ہیں جس کے لیے دونوں جماعتوں کی جانب سے پہلے اپوزیشن لیڈر پر معاملہ طے پایاجائے گا ۔
جبکہ نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے ناموں پر غور شروع ہوچکا ہے۔ تیسرا اہم ایجنڈا نوازشریف کی وطن واپسی ہے اور اس کے لیے فارمولہ طے کیاجارہا ہے کہ عام انتخابات سے کتنے ہفتے یامہینے قبل نوازشریف وطن واپس آئینگے۔ بہرحال دونوں جماعتوں کی جانب سے بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
عام انتخابات میں دونوں مل کر مرکز میں حکومت تشکیل دیں مگر مسئلہ اس وقت ملک میں موجود معاشی مسائل، مہنگائی، بدترین لوڈشیڈنگ ہے جس کی وجہ سے عوام اذیت جھیل رہی ہے ۔ نواز شریف مسلم لیگ ن کے لیے الیکشن مہم چلائینگے اور جب نوازشریف وطن واپس آئینگے تو ایک اور پاکستان میں قدم رکھ رہے ہونگے جہاں حالات مکمل طور پر تبدیل ہوچکے ہیں کیونکہ جب نواز شریف وطن سے باہر گئے تھے۔
تو اس وقت وہ ایک متاثر لیڈر تھے جنہوں نے یہ بیانیہ اپنایا کہ مجھے حکومت سے سازش کے تحت نکالاگیا، میں نے ملکی معیشت کو بہتر کیا تھا مہنگائی کی شرح کم تھی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیداکئے ، توانائی بحران پرکسی حد تک قابوپالیا گیا تھا مگر اب یہ ماضی کا قصہ ہوکر رہ گیا ہے اب نواز شریف عام لوگوں کے اندر جائینگے تو ووٹرز کاموڈ مکمل تبدیل ہوگیا ہے۔
ان کے سامنے وہ نواز شریف آرہے ہیں جن کے بھائی نے وزارت عظمیٰ کامنصب سنبھالا ،ن لیگ مرکزی حکومت میں تھی اور اس دوران معاشی حالات، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بیروزگاری جیسے بڑے مسائل موجود ہیں تو کس طرح سے عوام کے سامنے خود کو بطور متاثر لیڈر پیش کرینگے اس لیے ان کیلئے مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ اسی طرح سے اتحادی جماعتوں خاص کر پیپلزپارٹی کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ایک اور چیلنج جو ان جماعتوں کے سامنے ہے۔
وہ پاکستان استحکام پارٹی ہے جو مکمل الگ سیٹ اپ کے ساتھ عام انتخابات میں میدان میں اتر رہی ہے ،صدر استحکام پارٹی عبدالحلیم خان نے پارٹی کی جانب سے بطور متوقع وزیراعظم جہانگیرترین کا نام بھی لے لیا ہے ۔علیم خان کا کہنا ہے کہ آئندہ عام انتخابات ہم سب کے خلاف لڑیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی میں شامل لوگ نیا پاکستان بنانے میں چیئرمین کا ساتھ دینا چاہتے تھے۔
اور سب نے اپنے اپنے حصے کے تحت کوشش بھی کی، میں نے استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کے لیے سب کو دعوت دی ہے لیکن کسی سے کوئی بات چیت نہیں ہو رہی۔ پرویز خٹک سے براہ راست رابطہ نہیں ہوا اور شاہ محمود سے بھی بات نہیں ہوئی تاہم اسد عمر سے ملاقات ہوئی اور انہیں پارٹی میں شمولیت کی دعوت بھی دی ہے۔ اسد عمر سیاست کرنا چاہیں گے تو ہماری پارٹی میں شامل ہوجائیں گے۔
بہرحال عید قرباں کے بعد تمام سیاسی جماعتیں عام انتخابات کی تیاریوں کے حوالے سے اپنے رابطوں میں مزید تیزی لائینگی اور ان کی بھرپور کوشش ہوگی کہ حلقوں کے اندر تگڑے امیدوارمیدان میں اتاریں اور اپنی پارٹی میں ان کی شمولیت کو یقینی بنائیں۔ ایک سیاسی دنگل سج جائے گا۔
مگر کامیابی کس کے حصے میں آئے گی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگامگر عید قرباں کے بعد سیاسی منظر نامہ واضح ہوجائے گا، شمولیتی پروگرام اور سیٹ ایڈجسٹ منٹ سے بخوبی اندازہ لگایاجائے گاکہ کون سی جماعتیں معرکہ مارنے میں کامیاب ہوں گی۔