وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو اس وقت وفاقی حکومت سے سخت نالاں دکھائی دے رہے ہیں ایسامحسوس ہورہا ہے کہ اس وقت بلوچستان اور وفاق کے درمیان فاصلے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اوراس کی بنیادی وجہ بلوچستان کو اس کے آئینی حقوق فراہم نہ کرنا ہے۔
بہرحال اب کوئی قوم پرست جماعت نہیں بلکہ صوبے کا ایگزیکٹیو یہ شکوہ کررہا ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، ہمارے وسائل پر ہاتھ صاف کیاجارہا ہے۔ بلوچستان کی ڈیموگرافی تبدیل کرکے مقامی لوگوں کو اقلیت میں تبدیل کیاجارہا ہے۔ بلوچستان کے وسائل کو اونے پونے داموں کمپنیوں کے حوالے کیا گیا ہے جس سے بلوچستان کے عوام اور صوبے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ کمپنیاں اور وفاق منافع کمارہے ہیں جبکہ بلوچستان کو مکمل طور پر نظرانداز کیاجارہا ہے۔
یہ سلسلہ دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔ بلوچستان کے میگامنصوبوں سے ملنے والی رقم بلوچستان کو نہیں ملتی، سوئی گیس کی مد میں بھی واجبات اسی طرح ٹال مٹول کے ذریعے نہیں دی جارہیں۔ بلوچستان کو معاشی گیم چینجر تو کہاجاتا ہے مگر عملاََ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پانی کے حوالے سے کوئی بھی بڑا منصوبہ بلوچستان کو نہیں دیا گیا ہے۔
جس طرح سے کراچی کو کے فور منصوبہ دیا گیا ہے، بلوچستان کو ریلوے جیسے بہترین منصوبے نہیں دیئے گئے جس طرح سے سندھ میں سرکلر ریلوے کا منصوبہ بننے جارہا ہے۔ گرین لائن، اورنج لائن، پنک بس، الیکٹرک بس جیسے سفری سہولیات تک بلوچستان کے عوام کو دستیاب نہیں،خستہ حال بسوں پر دھکے کھاکر سفر کرنے پر مجبور امیر بلوچستان کے غریب عوام سفر کرتے ہیں۔
بلوچستان کی شاہراہیں، پُل تباہ حال ہیں جبکہ کوئٹہ کراچی شاہراہ جو خونی شاہراہ کے نام سے مشہور ہے، دورویہ نہ ہونے کی وجہ سے اب تک سینکڑوں انسانی جانیں کا اس پر ضایع ہوچکی ہیں لیکن اس پراب تک بھی کوئی کام نہیں ہواہے۔مواصلات کا نظام بھی اسی طرح ہے لوگوں کے پاس جدید دور میں مواصلات جیسی سہولت موجود نہیں۔ پانی، گیس، بجلی، سیوریج، تعلیم، صحت سمیت بنیادی سہولیات سے آج تک بلوچستان محروم ہے۔
وفاق میں بننے والی ہر نئی حکومت بیانات کے ذریعے بلوچستان کے عوام کو سبز باغ دکھاتی ہے اور عملاََ کوئی کام نہیں کیاجاتا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو گزشتہ روز وفاقی حکومت پر خوب برس پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا بلوچستان کے ساتھ رویہ انتہائی افسوسناک ہے،وفاق نے بلوچستان کے ساتھ وعدے وفا نہ کرنے کی روایت برقرار رکھی ہے،اعلان کے باوجود پی پی ایل کے واجبات اور نہ ہی این ایف سی کا پورا شیئر مل سکا، خزانہ ڈویژن اور پی پی ایل بورڈ نے وزیراعظم کے اعلان کو ہوا میں اڑا دیا،لگتا ہے ۔
وزیر خزانہ وزیراعظم کی باتوں اور وعدوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ہمارا روڈ نیٹ ورک این ایچ اے کی جانب سے عدم توجیحی کا شکار ہے، بلوچستان کے حالات کی ذمہ داری بڑی حد تک پی پی ایل پر بھی عائد ہوتی ہے،بلوچستان اور پی پی ایل کے مابین سوئی معاہدہ 2015 میں اپنی مدت پوری کر چکا ہے، ہمیں نہ تو دیوار سے لگا یا جائے اور نہ ہی سخت رد عمل پر مجبور کیا جائے۔بلوچستان کے عوام اپنے حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔
آئین پاکستان چھوٹے صوبوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر نیا این ایف سی ایوارڈ لایا جائے، ساتواں این ایف سی ایوارڈ 2014 میں اپنی مدت مکمل کر چکا، بلوچستان کو سالانہ دس ارب سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ وفاق میں بلوچستان کے پالیمانی نمائندے بلوچستان کی آواز ایوانوں تک پہنچائیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کے ان تمام گلے شکوؤں کا جائزہ لیاجائے تو سب حقیقت پر مبنی ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو کی جانب سے آواز بلند کرنا بہترین اقدام ہے مگر ساتھ ہی اب ذمہ داری باپ، بی این پی، جے یوآئی جماعت کی بھی بنتی ہے جو بلوچستان میں اکثریت رکھتی ہے اور اس وقت وفاقی حکومت کا حصہ ہیں، انہیں ان مسائل پر وزیراعظم میاں شہبازشریف کے سامنے اپنا بھرپور احتجا ج ریکارڈ کرانا چاہئے، اتنی ہمت تو ضرور کرنی چاہئے جس طرح سے پاکستان پیپلزپارٹی نے بجٹ پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے سندھ کے سیلاب زدگان کے معاملے کو اٹھایا اور واضح کیا کہ ہمارے تحفظات کو دور نہ کیا گیا تو ہم بجٹ کو منظورنہیں ہونے دینگے۔
اگر ایک بہت بڑی اتحادی جماعت یہ قدم اٹھاسکتی ہے تو بلوچستان کی جماعتیں کیوں لب کشائی نہیں کررہیں، انہیں اپنے لوگوں کو مسائل اور صوبے کو درپیش مالی چیلنجز سے نکالنے کیلئے کردار ادا کرناہوگا اب وہ حکومت کا حصہ ہیں اپوزیشن میں نہیں ہیں کہ ملبہ کسی اور پر ڈال دیاجائے اور خود بری الذمہ ہوجائیں۔