|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2023

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ورکن قومی اسمبلی سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ بات چیت کیلئے آنے والے لوگ ہماری اراضی پرقبضہ کی بجائے پیچھے جانے کا بول رہے ہیں،سردار تو بلوچستان میں ہر جگہ ہیں۔

خود جنرل مشرف نے یہ اعلانیہ کہا تھا کہ بلوچستان کے 73 سرداروں میں تین کے سوا باقی ان کے ساتھ ہیں 70 کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم پرستوں کی حکومت نے بلوچستان سے سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا لیکن اس کو ختم کرنے کی بجائے ریاست اس کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہی ہے۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے غیر ملکی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترمینگل سے جب رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس کی ذمہ داری مبینہ طور پر ریاستی اداروں کی سرپرستی میں چلنے والے گروہ پر عائد کی۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ سابق آمر مشرف کے دور میں بلوچستان میں قوم پرستی کی جو تحریکیں تھیں ان کو کانٹر کرنے کے لیے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ڈیتھ سکواڈ اور مسلح جتھے بنائے گئے۔ ریاستی اداروں نے ان جتھوں کو ان تحریکوں سے بلاواسطہ یا بلاواسطہ تعلق رکھنے والے افراد کو اغوا اور قتل کرنے کا لائسنس دیا۔بی این پی کے سربراہ نے کہا کہ سنہ 2012 تک ان مسلح جتھوں سے بلوچستان کے مختلف علاقوں یہ کام بھرپور انداز سے لیا گیا تاہم اس کے بعد بھی وقت فوقتا ان سے کام لیا جاتا رہا۔سردار اختر مینگل نے دعوی کیا کہ وڈھ میں دیگر مظالم کے ساتھ ساتھ مخالف گروہ نے ان کی اراضی پر بھی قبضہ کیا۔انھوں نے الزام عائد کیا کہ سرکار کے لوگ جب یہاں ہم سے بات چیت کے لیے آتے ہیں تو یہ مانتے ہیں کہ وڈھ میں جس اراضی پر قبضہ کیا گیا وہ ریونیو ریکارڈ کے مطابق ہماری ہے لیکن اراضی کا قبضہ ختم کرانے کی بجائے ہمیں کہتے ہیں کہ آپ لوگ پیچھے ہو جائیں۔

اس سوال پر کہ شفیق الرحمان مینگل آپ پر سرداری نظام کے باعث لوگوں پر ظلم، انھیں اغوا کرنے اور نجی جیل میں ڈالنے کا الزام عائد کر رہے ہیں، سرداراختر مینگل نے کہا کہ کیا یہ سرداری نظام صرف وڈھ میں ہے؟سردار تو بلوچستان میں ہر جگہ ہیں۔ خود جنرل مشرف نے یہ اعلانیہ کہا تھا کہ بلوچستان کے 73 سرداروں میں تین کے سوا باقی ان کے ساتھ ہیں۔انھوں نے سوال کیا کہ ضلع خضدار کے علاقے توتک سے جو اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں تو کیا وہاں سرداری نظام کی کوئی جیل تھی یا سرکاری سرپرستی میں قائم مسلح جتھے تھے؟انھوں نے کہا کہ 70 کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قوم پرستوں کی حکومت نے بلوچستان سے سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا لیکن اس کو ختم کرنے کی بجائے ریاست اس کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہی ہے۔

وڈھ کی حالیہ کشیدہ صورتحال کے حوالے سے ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ یہاں بدامنی کے واقعات کے ساتھ ساتھ عام لوگ اور تاجر اغوا ہوتے رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں قبائلی نظام ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خود شفیق الرحمان بھی اپنے قبیلے کے بعض لوگوں کا نام استعمال کر رہے ہیں لیکن جب مسلح جتھے کے مظالم سے لوگ تنگ آ گئے تو ان میں اس کے خلاف موجود لاوا پھٹ گیا اور وہ ان مظالم کے خلاف کھڑے ہو گئے۔