ملک حقیقی انصاف وعدل کے بغیر نہیں چل سکتا اور نہ ہی سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے اداروں کو استعمال کرتے ہوئے مخالفین کو دیوار سے لگاکر جمہوریت اور نظام کو مضبوط کیاجاسکتا ہے۔
عام لوگوں کانظام سے اعتبار اٹھنے کی وجہ غلط فیصلے اور پالیسیاں ہیں جس پرکبھی بھی سنجیدگی سے نہیں سوچاگیا،المیہ ہے کہ ماضی کے فیصلوں سے بھی سبق نہیں سیکھا گیا اورپھر اسی ادارے کی جانب سے یہ بتایاجاتا ہے کہ غلط فیصلے دیکر سیاستدانوں کو نقصان پہنچایاگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے لیکر پانامہ کیس تک وزراء اعظم کی نااہلی بڑی مثالیں ہیں جن کا ازالہ ممکن نہیں، اس میں صرف ادارہ نہیں بلکہ سیاستدانوں کی ذاتی دلچسپیاں بھی شامل رہی ہیں کرسی اور اقتدار کی خاطر نظام کو مفلوج بناکر رکھ دیاجاتا ہے جبکہ من پسند شخصیات کو آگے لایاجاتا ہے۔ آج جو نتائج سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بھگت رہے ہیں یہ انہی کے کئے ہوئے بدترین پالیسیاں ا ور فیصلے ہیں۔
بہرحال احتساب عدالت لاہور نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس سے بریت کا فیصلہ جاری کردیا۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ نواز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا، اس وقت کی حکومت نے نیب حکام کو نوازشریف کا سیاسی کیریئر تباہ کرنے پر مجبور کیا، ملک کے تین بار کے وزیراعظم نواز شریف کی ساکھ کو تباہ کیا گیا۔احتساب عدالت نے قرار دیا کہ ریفرنس کے الزامات میں نواز شریف کا کردار شریک ملزموں سے بھی کم ہے۔
عدالت نے نوازشریف اور ان کی جائیدادوں کے27 شیئرہولڈرز کی منجمد جائیدادیں بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نیب کیس پراپرٹی اپیل کا وقت ختم ہونے کے بعد ریلیز کر دے، فیصلے کی کاپی چیئرمین نیب اور ڈپٹی پراسکیوٹر جنرل نیب کوبھیجی جائے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سینئر اسپیشل پراسکیوٹر اسداعوان کو حقائق کا علم ہونے کی بنیاد پر عدالتی معاون مقرر کیا گیا، سینئر اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دیناقانون کے مطابق نہیں تھا، اسپیشل پراسکیوٹر نے کہا کہ نئی نیب ترمیم کے مطابق نواز شریف کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی۔احتساب عدالت نے فیصلے میں کہا کہ عدالت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی، نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے، تعمیل کنندہ کا بیان ریکارڈ نہ کرنے پر اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
نیب کا بنیاد ی مقصد احتساب کرنا ہے اورمیرٹ شفافیت کی بنیاد پر فیصلہ دینا ہے مگر افسوس کا مقام ہے جو بھی حکومت آئی اس نے اپنے من پسند نیب چیئرمین تعینات کئے اور ان سے فیصلے بھی پسند کے کرائے گئے۔پی ٹی آئی دور میں تو حد ہوگئی تھی کہ ایک نیب چیئرمین کو مبینہ ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرتے ہوئے فیصلے لیے گئے یہ الگ بات ہے کہ اسی نیب چیئرمین کا اپنا کردار بھی اتنا اچھا نہیں تھا کہ اس کی تعریف کی جائے، مگر احتسابی عمل کو بہتر اور شفاف بنانے کے لیے سیاسی مداخلت بند ہونی چاہئے تاکہ اپنے ماضی کے فیصلوں پر شرمندگی کا سامنا نہ کرناپڑے۔ موجودہ حکومت کی مدت کم رہ گئی ہے اور انہیں اسی دوران ہی مثالیں قائم کرنی ہونگی کہ سیاسی انتقام کی بنیاد پر کسی کو دیوار سے نہیں لگایا جائے گا ۔
بلکہ قانون اور آئین کے مطابق جس پر جو کیسزہیں ان کا ٹرائل اسی طرح ہونا چاہئے اور سزاوجزا شفاف طریقے سے ہونا چاہئے۔الزام ثابت ہونے پر کسی طرح کی رعایت نہیں دینی چاہئے اور جب کیسز ثابت نہ ہوں تو انتقامی بنیاد پر سزا دینے سے گریز کیاجائے تاکہ نظام پر عوام کا اعتماد برقرار رہے۔