سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین (پی ٹی آئی ) کی احاطہ عدالت سے گرفتاری کو انصاف کے حصول کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ گرفتاری کو درست کہنا پولیس کو عدالتی احاطے سے ملزمان پکڑنے کی شکارگاہ بنانے کی دعوت جیسا ہوتا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی 9 مئی کو گرفتاری کے بعد ان کی رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا، یہ فیصلہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے وجوہات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔
عدالت عظمیٰ کی طرف سے جاری 22 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتوں کے تقدس اور وقار پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا، لوگ عدالتوں سے اس لیے رجوع کرتے ہیں تاکہ محفوظ ماحول میسر آئے۔
فیصلے میں شرجیل علی موسیٰ گیلانی اور شرجیل انعام میمن کے فیصلوں کا بھی حوالہ دیا گیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جوڈیشری ماحول میں خلل سے انصاف کی فراہمی متاثر ہوتی ہے، مستقبل میں پولیس اور اداروں کو عدالتی تحفظ اور وقار سے خبردار کرنا مقصد تھا، لوگوں کے عدالتوں میں انصاف کی فراہمی میں رسائی کو محفوظ بنانے کیلئے آئین میں توہین عدالت کا زکر ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق باز محمد کاکڑ کیس میں عدالت عظمیٰ اصول طے کر چکی انصاف کی فراہمی میں خلل نہیں پیدا کیا جاسکتا، عدالت عالیہ کے بائیو میٹرک روم کا دروازہ، کھڑکیاں اور شیشہ توڑ کر گرفتاری عدالتی وقار کے منافی ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ گرفتاری کے وقت وکلا، پولیس اہلکاروں اور ہائیکورٹ کے عملے کو زخمی کیا گیا تو عدالت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، سپریم کورٹ نے اسی لیے 11 مئی کو درخواست گزار کی گرفتاری خلاف قانون قرار دی۔
فیصلے کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کو درست کہنا بنیادی حقوق کیخلاف ہوتا، گرفتاری کو درست کہنا پولیس کو عدالتی احاطے سے ملزمان پکڑنے کی شکارگاہ بنانے کی دعوت جیسا ہوتا۔ سابق وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود کو 9 مٸی واقعات سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہیں؟ سابق وزیراعظم نے جواب دیا وہ گرفتار تھے، معلوم نہیں کہ ملک میں کیا ہوا؟ چیئرمین پی ٹی آئی نے یقین دہانی کرائی کہ کبھی کارکنوں کو تشدد پرنہیں اکسایا، چیٸرمین پی ٹی آٸی نے یقین دہانی کراٸی کہ وہ ملک میں امن چاہتے ہیں۔