کوئٹہ کے شہریوں کے لیے بڑی خوشخبری ہے کہ اب شاہراہوں پر گرین بس سروس چلے گی جس کا اعلان گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو نے کیا تھا۔ یہ انتہائی خوش آئند عمل ہے گزشتہ کئی برسوں سے عوامی حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیاجارہا تھا کہ انہیں سستی اور معیاری سفری سہولیات فراہم کی جائیں جس طرح دیگرصوبوں کی بڑی شہروں میں بس سروسز صوبائی حکومت کی سطح پر چل رہی ہیں۔بہرحال دیرآید درست آید کیونکہ کوئٹہ میں کوئی سہولت شہریوں کے لیے دستیاب نہیں اور جو لوکل بسیں ہیں ان کی حالت انتہائی خستہ ہے جس سے خواتین، بزرگ، اسٹوڈنٹس سب کو پریشانی کا سامنا کرناپڑتا ہے کوئی مستقل اسٹاف بھی بسوں کانہیں،انتہائی اذیت کے ساتھ شہری لوکل بسوں میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
لوکل بس مالکان ہر بار ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرکے بہترین سفری سہولیات کے خلاف بے جا تنقید اور احتجاج کرتے ہیں جبکہ خود بس ڈرائیور اور کنڈیکٹروں کا رویہ عوام کے ساتھ درست نہیں ہوتا، بدتمیزی سے شہریوں کے ساتھ پیش آتے ہیں جبکہ کرایوں میں خود ساختہ اضافہ کرتے ہیں۔
اب گرین بس سروس چلنے سے کم ازکم کوئٹہ کے شہریوں کا یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوجائے گامگر ساتھ ہی بلوچستان کے دیگربڑے شہروں کو بھی سفری سہولیات کے حوالے سے حکومتی سطح پر بس سروس چلانے کے لیے منصوبے بنانے چاہئیں تاکہ اندرون بلوچستان کے لوگوں کو بھی یہ سہولت میسر آسکے۔بہرحال بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں گرین بس سروس ڈیڑھ سال کی تاخیر سے شروع کی جارہی ہے جسکا اعلان وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبد القدوس بزنجو نے اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کیا اورکہاکہ 17 جولائی سے گرین بس سروس کا باقاعدہ آغاز کر دیا جائے گا جس کے تحت کوئٹہ کے عوام کو آرام دہ اور بہترین سفری سہولت میسر ہوگی
۔گرین بس منصوبے کے تحت 8 بسوں کو کوئٹہ کی اہم شاہراہوں پر چلایا جائے گا۔ بس سروس بلیلی سے شروع ہوگی جو ایئرپورٹ روڈ، کوئلہ پاٹک، سمنگلی روڈ، زرغون روڈ، انسکمب روڈ اور سریاب روڈ سے ہوتی ہوئی جامعہ بلوچستان تک جائے گی، اس دوران گرین بس شہر کے 18 اہم مقامات پر قیام کرے گی۔گرین بس منصوبے پر اب تک 11 کروڑ کی لاگت آئی ہے جبکہ مستقبل میں اس منصوبے کو 200 بسوں تک وسعت دی جائے گی جو شہر کے 20 سے زائد مختلف مقامات پرعوام کو سہولیات فراہم کرے گی۔منصوبے کے تحت عوام کی سہولت کے لیے کرایہ تقریباََ30 روپے تک رکھنے کی تجویز دی گئی ہے
تاہم اس پرحتمی فیصلہ ابتک نہیں ہواہے۔ گرین بس سروس پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلائی جارہی ہے جس میں پرائیویٹ بس سروس گرین بس کو چلانے کی ذمہ دار ہوگی۔بلوچستان عوامی پارٹی نے 2018 ء میں حکومت سنبھالی تو سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کوئٹہ کے باسیوں کو بہترسفری سہولیات فراہم کرنے کے لیے گرین بس سروس کے نام سے منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت شہر کے مختلف علاقوں میں 100 بسیں چلانے کا منصوبہ بنایا گیا۔اس منصوبے میں کوئٹہ کے علاقے نواں کلی، ہنہ اوڑک، سبزل روڈ، قمبرانی روڈ، جوائنٹ روڈ اور مغربی بائی پاس پر یہ بسیں چلائی جانی تھیں جبکہ منصوبے میں بسوں کے لیے بس اسٹاپ اور انتظار گاہ کی سہولت بھی فراہم کی جانی تھی۔ منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے 2021 ء تک کا وقت مقرر کیا گیا تھا لیکن جام کمال کے استعفے کے بعد گرین بس سروس تعطل کا شکارہوتی گئی۔
اس عرصے میں صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے منصوبے کے آغاز کے مختلف تاریخوں کا اعلان کیا گیا لیکن بس سروس شروع نہ ہوسکی۔ گرین بس سروس کا آغاز 2021 ء کے اختتامی مہینوں میں کیا جانا تھا تاہم وزیراعلیٰ کے منصب اور صوبائی کابینہ میں تبدیلی کے بعد منصوبہ شروع نہ ہو سکا۔ ستمبر 2021 ء میں عبدالقدوس بزنجو وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے جس کے بعد منصوبہ تعطل کا شکار ہونا شروع ہوگیا۔منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر آٹھ گرین بسیں جون 2022 ء میں کوئٹہ پہنچیں تاہم بسیں پہنچنے کے باوجود مزید ایک سال تک یہ سروس عوام کو فراہم نہ کی جا سکی۔ترجمان وزیراعلیٰ بلوچستان بابرخان یوسفزئی کاکہناہے کہ منصوبے میں تاخیر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی وجہ سے ہوئی۔ جام کمال کی جانب سے منصوبے کی کوئی فزیبیلٹی رپورٹ نہیں بنائی گئی تھی اور نہ ہی بسوں کے لیے روٹ اور کرایے مختص کیے گئے تھے۔بابر یوسفزئی نے کہا کہ گرین بس منصوبے کے ساتھ ساتھ شہرکی اہم شاہراہوں کو وسعت دیے جانے کے کام میں بھی جام کمال کی جانب سے تاخیر کی گئی جس کی وجہ سے عوام تک گرین بس منصوبے کو پہنچانے میں وقت لگ گیا۔ بہرحال اب الزامات سے آگے بڑھ کر بلوچستان کی ترقی وتعمیر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے موجودہ حکومت اپنی تمام تر توانائی اور وسائل بلوچستان کی عوام کے فلاح وبہبوداور ترقی کے لیے صرف کرے تاکہ پسماندہ صوبے کے عوام کی مشکلات میں کمی کے ساتھ انہیں بہترین سہولیات بھی مل سکیں۔