|

وقتِ اشاعت :   July 15 – 2023

پاکستان ڈیفالٹ سے تو بچ گیا اب ملک میں معاشی سرگر میاں تیز کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں تاکہ ملکی معیشت بہتر ہوسکے مگر اس کے لیے مستقل معاشی پالیسیاں اور کرپشن، بدعنوانی کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے بڑے بڑے صنعتکاروں نے ملک کو نقصان پہنچایا ،سیاسی چھتری تلے رہ کر صنعت کار ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے اب اس عمل کو سختی سے روکنے کے لیے خود سیاسی جماعتوں کو اقدامات اٹھانے ہونگے۔ سیاسی دوستی پسند وناپسند سے بالاتر ہوکر گڈگورننس کی طرف توجہ مرکوز کرنی ہوگی خاص کر احتسابی عمل کو سیاست کی بھینٹ چڑھانے سے روکنا ہوگا ۔

شفاف احتساب ،قانون کی حکمرانی ہی ملک کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جاسکتا ہے ۔یہ بڑاالمیہ ہے کہ ہمارے یہاں قانون سب کے لیے یکساں نہیں رہا ہے مختلف وارداتوں کے ذریعے من پسند افراد کو ریلیف فراہم کیا گیا جبکہ مخالفین کو دیوار سے لگانے کے لیے تمام تر قانونی واخلاقی اقدار کو پھلانگ کر انہیں سیاست سے ہی آؤٹ کرکے کیسز کے ذریعے جیلوں میں ڈالا گیا، یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چلتا آرہا ہے اب اس عمل کو روکنا ہوگا ملک کو دستور کے تحت ہی چلانا ہوگا تاکہ نظام مضبوط ہوسکے کیونکہ نظام ہی کی مضبوطی سے ملک بہتری کی جانب بڑھے گا۔

بہرحال گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے قرض پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کو انتہائی سخت قرار دیا۔ملتان میں یوتھ لون پروگرام سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر خوشی کے شادیانے نہیں بجانے، آئی ایم ایف پروگرام حلوہ یا کھیر نہیں، شرائط بہت کڑی اور سخت ہیں اور ہم نے تمام شرائط مانی ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ ناگزیر تھا، اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ سے بچ گیا ۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کب تک ہم مانگتے رہیں گے، بڑے بڑے صنعت کاروں کو ماضی میں 3 ارب ڈالر دیے گئے، ارب پتی افراد نے بھی 3 سے 4 فیصد سود پر قرض لیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کا 3 ارب ڈالر قرض پروگرام منظور کرلیا

اور آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرض پروگرام کے تحت ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط مل گئی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان کو 3 ارب ڈالر ملنے ہیں، آئی ایم ایف کا پروگرام 9 ماہ کا ہے،3 ارب ڈالر پاکستان کو ملیں گے۔وزیراعظم میاںمحمد شہباز شریف نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے اور یہ دستاویزات میں بھی موجود ہے خبروں کی بنیاد پر کہ بڑے صنعتکاروں نے ماضی میں تین ارب ڈالر تین سے چار فیصد سود پرقرض لیے اب ان پر ہاتھ ڈالاجائے گا ۔بات یہی ہے کہ قانون کو اپنا راستہ اپناناہوگا جب تک سزا وجزا کے معاملے میں شفافیت نہیں آئے گی، صنعتکارسمیت سیاستدان، بیوروکریٹس نظام کے اندر کرپشن کرتے رہیں گے اور اس کا خمیازہ معاشی بحران کی صورت پر اٹھانا پڑے گا جس کا سارا بوجھ عوام پر گرتا ہے پھر عالمی مالیاتی ادارے کے سامنے کچکول لیکر حکومت جاتی ہے کہ ہمیں ملکی معیشت کو چلانے کے لیے قرض درکار ہے ۔حالیہ آئی ایم ایف کا رویہ تازہ مثال ہے کہ ناک رگڑوا کر قرض دیا گیاجس پر جگ ہنسائی بہت زیادہ ہوئی اور خود وزیراعظم میاںمحمد شہباز شریف ہر تقریب میں اس بات کو دہراتے ہیں کہ ہم کسی دوست ملک کے پاس جاتے ہیں تو ہمیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بھیک مانگنے آئے ہیں ۔یہ بڑا المیہ ہے اس سے ملکی ساکھ متاثر ہورہی ہے خدارا اب معیشت سمیت نظام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جب تک قانون کی بالادستی نہیں ہوگی ہم ترقی نہیں کرسکتے اس لیے ان رویوں سے سبق سیکھنا ہوگا اور مستقبل کے حوالے سے تلخ فیصلے کرنے ہونگے تاکہ ملک دوبارہ معاشی تنزلی کاشکار نہ ہو۔