گزشتہ روز خیبرپختونخواہ کے علاقے باجوڑ میں جے یوآئی(ف) کی کارنرمیٹنگ کے دوران دہشتگردانہ حملہ ہواجس کے نتیجے میں 54 افراد شہید اور 80 سے زائد زخمی ہوئے۔سیکیورٹی حکام کے مطابق جے یو آئی کا جلسہ دوپہر 2 بجے شروع ہوا اور دھماکا 4 بجکر 10 منٹ پر ہوا۔ دھماکے کی جگہ سے بال بیرنگ وغیرہ ملے ہیں، دھماکا خود کش تھا اور حملہ آور گروپ کی شناخت ہوئی ہے۔
دھماکہ میں کوئی خاص ٹارگٹ تھا۔بہرحال خیبرپختونخوا میں ایک مرتبہ پھر دہشت گردی نے سر اٹھانا شروع کردیا ہے جہاں گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کے660 سے زیادہ چھوٹے بڑے واقعات میں سیکڑوں افراد جان کی بازی ہار گئے۔رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے سب سے زیادہ 140 واقعات شمالی وزیرستان میں ہوئے جبکہ ڈی آئی خان میں 81، جنوبی وزیرستان میں 49، پشاور اور باجوڑ میں دہشت گردی کے 56، 56 واقعات رپورٹ ہوئے۔
پشاور پولیس لائنز میں ہونے والا خود کش دھماکا دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا جس میں 90 سے زیادہ افراد شہید ہوئے۔یوں مجموعی طور پر دہشت گردی کے واقعات میں 500 سے زیادہ افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ دوسری جانب محکمہ انسداد دہشت گردی نے گزشتہ 6 ماہ کے دوران دہشت گردوں کے خلاف1100سے زیادہ آپریشنز کیے، اس دوران 140 دہشت گرد مارے گئے جب کہ 400سے زیادہ شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا۔دوسری جانب باجوڑ حملے کی حکومت، سیاسی ومذہبی جماعتوں سمیت تمام مکتبہ فکر نے شدید مذمت کی جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے باجوڑ دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے حکومت پاکستان اورجاں بحق افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
سلامتی کونسل کی طرف سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دھماکے میں زخمی افراد کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔سلامتی کونسل نے کہا ہے کہ تمام متعلقہ ممالک مجرموں کوکیفرکردارتک پہنچانے میں پاکستان سے تعاون کریں، دہشت گردی کی کوئی بھی کارروائی مجرمانہ، بلاجواز اور قابل مذمت ہے۔البتہ اس دہشت گردانہ حملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ایک خاص وقت پرملک دشمن عناصر نے یہ حملہ کیا چینی نائب صدردورہ پاکستان پر تھے ایک غلط تاثردنیا کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کے بعض علاقے اب بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں تاکہ بیرونی سرمایہ کاری نہ ہوسکے، اس دہشت گردانہ حملے کامقصد معاشی اور سیاسی حوالے سے ملک کو نقصان پہنچانا ہے ۔
کیونکہ اب عام انتخابات کی بھی تیاریاں ہونے جارہی ہیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے عوامی اجتماعات منعقد ہونگی دہشت گرد عناصرعوام میں خوف پھیلانا چاہتے ہیں اور ملک کو غیر یقینی صورتحال کی طرف دھکیلنے کی مذموم سازش کررہے ہیں لہٰذا دہشت گردی کے خلاف ایک بار پھر بڑے آپریشن کی ضرورت ہے تاکہ اس پر بروقت قابو پایاجاسکے۔
ماضی میں چھوٹے اوربڑے آپریشن دہشت گردوں کے خلاف کئے گئے تو اس کے نتائج بھی برآمد ہوئے،ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا مگر افسوس کہ پی ٹی آئی دور میں صرف اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی انتقامی کارروائیاں کی گئیں۔ ایک پُرامن پاکستان پی ٹی آئی دور حکومت کو ملا مگر انہوں نے مزید اس پر کام کرنے کی بجائے سیکیورٹی معاملات پر توجہ ہی نہیں دی، البتہ اب موجودہ حکومت اپنے ا ٓخری ایام میں اہم فیصلے کرے تاکہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کا قلع قمع کیاجاسکے اورملک میں سیاسی اور معاشی استحکام برقرار رہے۔