ملک میں مرکزی نگراں سیٹ اپ کی تشکیل کے حوالے سے وقت کم رہ گیا ہے جس سے مشاورت کے عمل میں تیزی آگئی ہے جلد ہی نگراں سیٹ اپ کے لیے شخصیات کے نام فائنل ہوجائینگے جس کے بعد مرکز میں نگراں حکومت آئے گی اور وہ معاملات چلائے گی ۔
اسی طرح صوبوں کے اندر بھی نگراں حکومت کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔ بہرحال یہ ایک اچھا عمل ہے کہ وقت پر شفاف انتخابات ہوجائیں تاکہ جو ابہام پایا جاتا ہے وہ دم توڑ دے اگرچہ حکومتی اتحادیوں نے واضح کردیا ہے کہ عام انتخابات وقت پر ہی ہونگے اوراس کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے اچھی ساکھ کی عامل شخصیات کے ناموں پر غور کیا جارہاہے.
یقینا یہ ایک حساس ترین معاملہ بھی ہے کیونکہ ایسی شخصیات نگراں حکومت میں آنی چاہئیں جن کی سوچ جمہوری ہو اور وہ اپنے فرائض احسن طریقے سے نبھائیں کسی سیاسی جماعت کے حمایتی نہ ہوں بلکہ ملکی مفادات کے تحت فیصلے کریں۔ بہرحال گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِصدارت اجلاس میں حکومتی اتحادیوں نے 9 اگست کو اسمبلیاں تحلیل کرنے پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت اتحادیوں کا ویڈیو لنک اجلاس ہوا جس میں 3 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا۔ذرائع کے مطابق نگران سیٹ اپ، نئی مردم شماری اور اسمبلیوں کی تحلیل پرمشاورت ہوئی۔ذرائع نے بتایاکہ اسمبلیوں کی تحلیل 9 اگست کو کرنے پر تمام رہنماؤں نے اتفاق کیا اور کہا کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں۔ذرائع کے مطابق اتحادیوں نے اس امر پر بھی اتفاق کیا کہ مردم شماری کے معاملے پر مشترکہ مفادات کونسل جو فیصلہ دے گی قبول ہوگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے نگران وزیراعظم کے نام پرمزید مشاورت کیلئے وقت مانگ لیا جبکہ وزیراعظم نے نگران وزیراعظم سے متعلق اتحادیوں سے آج رات تک تجاویز مانگ لیں اور کہاکہ جو تجاویز دیناچاہیں وہ آج رات تک رابطہ کرسکتا ہے۔اطلاعات کے مطابق اجلاس میں محسن داوڑ نے بھی نگران وزیر اعظم کیلئے دو نام تجویز کیے جبکہ اسلم بھوتانی نے بلوچستان میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق بیوروکریٹ کا نام تجویز کیا تاہم بلاول بھٹو زرداری، اختر مینگل اور مولانا فضل الرحمان نے کسی کا نام تجویز نہیں کیا۔سردار اختر مینگل نے شکوہ کیا کہ وزیراعظم کی قائم کردہ کمیٹی نے تاحال ہم سے رابطہ نہیں کیا جبکہ بلاول بھٹو نے جلد بازی میں ہونے والی قانون سازی پر تحفظات کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز اتحادیوں کے عشائیے میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھاکہ قومی اسمبلی توڑنے کی سمری 9 اگست کو صدر کو بھیج دیں گے۔ بہرحال اتحادیوں کے درمیان بعض معاملات پراختلافات بھی ہوتے ہیں جس کا اظہار اتحادی جماعتوں کے قائدین نے کھل کرکیا ہے اب آخری مرحلہ ہے اس پر سب کو مشاورتی عمل میں لینا ضروری ہے تاکہ مسائل پیدا نہ ہوں۔ ملکی حالات اس وقت کسی غیرجمہوری عمل کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ جمہوری عمل کے ذریعے ہی معاشی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے اور اس تسلسل کو آگے بڑھانے کے لیے ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں نے اپنا کردار ادا کرنا ہوگانیز الیکشن کمیشن سے بھی یہی توقع ہے کہ وہ بھی اپنے فرائض انتخابات کے دوران احسن طریقے سے نبھائے گی تاکہ انتخابات کے نتائج پر سوالات نہ اٹھیں۔