|

وقتِ اشاعت :   August 9 – 2023

کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی کمیٹی کا دو روزہ اجلاس زیر صدارت چئیرمین بی ایس او جہانگیر منظور بلوچ شال میں منعقد ہوا جسکی کارروائی سیکریٹری جنرل عظیم بلوچ نے چلائی۔

اجلاس کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا۔

اجلاس میں چیئرمین بی ایس او کا افتتاحی خطاب، موجودہ عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال، بلوچستان میں تعلیمی مسائل، تنظیمی امور ،مرکزی کونسل سیشن سمیت آئندہ کے لائحہ کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔ چیئرمین بی ایس او نے سینٹرل کمیٹی اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال سے خطے میں بھی مزید تبدیلیوں کا امکان ہے۔ استحصالی قوتیں ہمیشہ مظلوم اقوام کے وسائل کا لوٹ مار کرکے انکا معاشی، سیاسی اور سماجی استحصال کرتے رہے ہیں۔

خطے کی موجودہ صورتحال سے بلوچستان نہ صرف براہ راست متاثر ہورہا ہے بلکہ بلوچ سیاست پر بھی اسکے اثرات کافی گہرے ہیں۔چیئرمین بی ایس او نے کہا کہ بلوچ قوم پرست قوتوں کا ہمیشہ سے قومی وسائل پر اختیار کا موقف رہا ہے جس کیلئے دہائیوں سے سیاسی جدوجہد جاری ہے لیکن مختلف حربوں اور استعماری طاقت کے ذریعے بلوچ قومی جدوجہد کو کچلنے کی کوشش ہوتی رہی جو تاحال جاری ہے۔

بلوچ قومی سوال کو کاؤنٹر کرنے کیلئے آج بھی طاقت کا استعمال جاری ہے۔

ایک طرف وفاق کے نام پر قومی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کرکے بلوچ قوم کو اقلیت میں بدلنے کی سازش جاری ہے تو دوسری جانب بلوچ طالبعلموں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا جارہا ہے۔ اسلام آباد سے لیکر گوادر تک نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کاتسلسل برقرار ہے۔

اسی طرح حقیقی قومی رہنماؤں اور سیاسی کارکنان کا راستہ روکنے کیلئے ریاستی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ گروپ سرگرم کیے گئے ہیں۔ چئیرمین نے اپنے خطاب میں کہا کہ تعلیمی اداروں کو خودساختہ بحران کا شکار بناکر بند کرنے کی سازش ہورہی ہے۔

اس صورتحال میں بلوچ طلباء￿ کوشعوری جدوجہد سے تمام تر چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس امر کیلئے ضروری ہے کہ بلوچ طالبعلم سیاسی جدوجہد کا حصہ بنیں۔

چئیرمین بی ایس او نے تنظیمی اراکین کی کارکردگی کو سرہاتے ہوئے کہا کہ اس کھٹن حالات میں بھی سرخ پرچم کو لہراتے ہوئے قومی و شعوری جدوجہد کو جاری رکھنا بہترین سیاسی حکمت عملی ہے جس کیلئے تنظیمی اراکین داد کے مستحق ہیں۔

انھوں نے کہا کہ تنظیمی کارکنان ذاتی مفادات اور انفرادیت کے خواہشوں کو پس پشت ڈال کر اجتماعی قومی مفادات کی خاطر سیاسی جدوجہد جاری رکھیں۔ سینٹرل کمیٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اراکین نے گزشتہ دنوں تربت میں بلوچ استاد رؤف بلوچ کی قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح اب مکران میں بھی مذہبی رجعت پسندی کو فروغ دیکر کچھ لوگوں کو ڈیتھ اسکواڈ کی شکل دے دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ توہین جیسے حساس معاملے کو مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرکے سماج میں نفرت پھیلانا تشویش ناک ہے۔

بلوچستان ایک انتہائی سیکولر خطہ رہا ہے جہاں ہر مذہب کے لوگ باہمی امن و بھائی چارگی سے رہتے ہوئے ایک دوسرے کا بھرپور احترام کرتے ہیں لیکن اس طرح کے واقعات سیمعاشرے میں نفرت اور افراتفری کی صورتحال پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے۔

اس سے پہلے بھی بلوچ دانشورپروفیسر صباء￿ دشتیاری، سر ذاہد آسکانی سمیت درجنوں بلوچ اساتزہ کو قتل کر دیا ہے۔

بلوچ سماج قطعی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مخصوص ایجنڈے کے تحت توہین کا جھوٹا الزام لگاکر بلوچ اساتذہ کا قتل کیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ قوم پرست سیاسی رہنماؤں اور بلوچ علمائے کرام پر فرض ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئیعملی کردار ادا کریں۔

سینٹرل کمیٹی اراکین نے بلوچ سیاسی رہنماء￿ سردار اختر جان مینگل کے گھر پر حملہ اور وڈھ میں ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ کی جانب سے جنگی سرگرمیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ سیاسی جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کیلئے تشدد پرست ذہنیت کی پشت پناہی خطرناک عمل ہے۔

بلوچستان کی قوم پرست قیادت کو مکمل قومی حمایت حاصل ہے۔

اس طرح کے حربوں سے سیاسی رہنماؤں کو پر امن جدوجہد کے راستے سے دستبردار نہیں کرایاجاسکتا۔

اراکین نے گزشتہ دنوں نصیر آباد میں کسان امداد جویو کے قتل کی بھی مذمت کی۔

سینٹرل کمیٹی اجلاس میں تنظیمی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مختلف فیصلوں پر اتفاق کیا گیا۔ آئندہ کونسل سیشن کیلئے کونسلران کا تعین کیا گیا جبکہ کونسلران کی چناؤ کیلئے مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی پر مشتمل دورہ کمیٹیاں تشکیل دیے گئے جو جلد دورہ کرکے کونسلروں کے چناؤ کا عمل پورا کریں گے اور تمام زونوں کی رپورٹ مرتب کرینگے۔اجلاس کے آخرمیں تنظیم کی مرکزی قومی کونسل سیشن بیادِ رہشون سردار عطا اللہ مینگل و ناصر بلوچ، بنامِ بلوچ لاپتہ افراد اکتوبر میں منعقد کرنے کی منظوری دے دی گئی۔