چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نظرثانی قانون کے خلاف درخواستوں پرمتفقہ فیصلہ سنایا،سپریم کورٹ ریویوآف ججمنٹس اینڈ آرڈرایکٹ 2023 کوکالعدم قراردیدیا گیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے فیصلہ پڑھ کرسنایا، فیصلہ سنانے سے پہلے درخواستوں کو قابل سماعت قراردیا گیا۔ سپریم کورٹ نےکہا ہےکہ ری ویو آف ججمنٹ ایکٹ غیرآئینی ہے، فیصلے کے بعد پنجاب الیکشن نظرثانی کیس سابقہ بینچ ہی سن سکے گا۔
سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرزاینڈ ججمنٹس ایکٹ کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کردیا گیا ، جبکہ جسٹس منیب اخترکا اضافی نوٹ بھی متفقہ فیصلے کا حصہ ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے 87 صفحات پرمشتمل فیصلہ تحریرکیا ہے۔فیصلے کےمطابق نظرثانی کو محض عمومی قانون سازی سے اپیل میں نہیں بدلا جاسکتا، آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ایسا ممکن ہے۔
تفصیلی فیصلےکےمطابق سپریم کورٹ ریویوایکٹ کی کوئی قانونی حثیت نہیں،آئینی عدالتوں کا فرض ہےکہ وہ آئین کا تحفظ اور دفاع کریں،عدالتوں کو آئین کی حکمرانی قائم کرنے کا اختیار دیا گیا، قانون آئین کےمطابق ہے یا نہیں؟ اس عدالتی اختیار کو بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا پڑتا ہے۔
ریویوایکٹ کی شق 2 میں کہا گیا نظرثانی کواپیل جیسا درجہ ہوگا، یہ قانون نظرثانی کا دائرہ وسیع کرنے تک محدود نہیں تھا، اس قانون میں پورا دائرہ اختیار بدلا گیا۔
جسٹس منیب اخترکی جانب سے اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ نظرثانی اپیل نہیں ہے،نظرثانی درحقیقت اپیل سے بالکل مختلف اورالگ ہے،کیا قانون سازوں کی طرف سے ہدایت کی جا سکتی کہ نظرثانی کواپیل جیسا سمجھا جائے؟اصول ہےعدالت میں پہلے سے طے ہوچکا معاملہ دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا،نظرثانی کا دائرہ اختیاراسی اصول کے ساتھ جڑا ہے
چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا۔خصوصی بینچ نے 19 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
پارلیمنٹ نےریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 منظورکیا تھا۔ پارلیمنٹ نے ایکٹ کے ذریعے لارجر بینچ کے سامنے نظرثانی اپیل کا حق دیا تھا۔